دروازے کی چوکھٹ میں ششدر سی بھابی کسی تصویر کی طرح ساکت تھیں ' اپنی ازلی تمسخرانہ مسکراہٹ کے بغیر' بے جان چہرا لیے ' بے جان چہرا لیے۔ بھیا کے قدم' جامد زمین کے سینے میں گڑے رہ گئے۔ وہ بڑھ کر روتی لائبہ کو اٹھا بھی نہ سکے۔ وہ تو بس زرمینے گل کی نمی چھلکاتی کائی زدہ جھیلوں میں کھو گئے۔
پس منظر میں لائبہ کی روتی چیختی آواز تھی' پیش منظر میں زرمینے گل کی آنسوؤں بھری خاموش سبز۔۔۔۔ آنکھیں اور بھیا کی انکھوں میں لائبہ اور زرمینے گل کے چہرے مدغم ہونے لگے ایک ابھرتا' دوسرا ڈوبتا' کبھی دوسرا ڈوبتا پہلا ابھرتا۔
نام الگ' چہرے الگ ' زمانے الگ ' مگر کردار ایک ہی اور سامنے لگے دیوار گیر شیشے میں انہیں اپنے عکس کی بجاۓ ابا میاں کا عکس نظر آیا ' ویسے ہی کنپٹیوں کو چھوتے سفید بال ' ویسا ہی قد و قامت ' جھکے کندھے اور وہی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا زرمینے گل کے لیے محبت و شفقت کا سمندر۔