SIZE
3 / 7

" نہیں بیٹھو چھوڑو پانی میں پی کر نکلی تھی' باتیں کرتے ہیں۔" وہ بازوؤں کو گردن کے نیچے رکھتے ہوۓ بولیں۔

حسب عادت وہ باتوں میں پوری طرح مشغول ہو گئیں تو اچانک سالن کی تیز خوشبو نے منیہ کو کچن کی طرف سر پٹ دوڑنے پر مجبور کر دیا۔ شکر ہے مرغی لگی نہیں تھی کچھ دیر کی تاخیر اس کے جلنے کا سبب بن جاتی۔

" یار نبیلہ کو بھی جانا ہوتا ہے۔ ورنہ میرا تو دل کرتا ہے ۔ اتنی پیاری بھابی کو اپنے میکے میں ہی رکھوں۔" مریم آپا کچن کے دروازے سے ٹیک لگا کر بولیں۔

" ہاں اللہ کا شکر ہے۔ جو اتنی پیاری مخلص بھابی عنایت کر دی۔ ورنہ آج کل کی بھابیوں' بہوؤں کے تو بہت سے قصے سننے کو مل جاتے ہیں۔" وہ شکر گزاری کے جزبات سے مغلوب ہوئی۔ نبیلہ بہت نیک طبعیت لڑکی تھی ۔ جو پکتا تھا کھا لیتی تھی۔ وہ بھی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔اس نے کبھی اماں کی تلخ باتوں کا برا نہیں منایا تھا۔ اماں بھی اکثر اوقات کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کی وجہ سے تلخ ہو جاتی تھیں۔ ورنہ عموما وہ بہت نیک اور اطھے دل کی مالک تھیں۔

" چل جلدی سے برقعہ اوڑھ لے پھر گھر جلدی آنا ہے۔" وہ چادر اوڑھتے ہوۓ پکارنے لگیں۔ وہ دونوں بازار جانے کے لیے نکل رہی تھیں۔

اماں مجھے دو رسالے دلا دیجیے گا۔ اس نے فرمائش نوٹ کرائی۔

" تیرے ان موۓ رسالوں سے تو میں عاجز آ گئی ہوں۔ جانے کب بڑی ہو گی۔" وہ بڑبڑائیں۔ مگر کیا کرتیں چھوٹی سے وہ محبت بھی کرتیں تھیں۔ وہ اس کی بڑی بڑی تو نہیں البتہ چھوٹی چھوٹی خواہشات ضرور پوری کرنے کی کوشش کرتیں۔

" سنیں یہ ریسپی بک کتنے کی ہے۔" رسالے خریدنے کے بعد بک اسٹال پر ایک پرانی حالت کی ریسپی بک پر اس کی نظر پڑی۔

" یہ سو روپے کی ہے باجی پرانی ہو گئی ہے اس لیے ورنہ تو اس کی قیمت تین سو روپے کی ہے۔" اس نے دانتوں کی نمائش کی ۔

" یہ لیں۔" اس نے مٹھی سے مڑا تڑا نوٹ نکالا۔ جو اس کی بچت تھا۔ چپ چاپ پے منٹ کر کے بک پرس میں رکھ لی۔ دل تھا کہ خوشی سے معمور ہو گیا۔ اس کا کئی دفعہ دل چاہا تھا ' جو رسالوں میں مختلف بیف اور چکن کے پکوانوں کے نام پڑھتی ہے۔ ان کو ٹرائی کر کے دیکھے۔

" ارے یہ کہاں سے آئی ہے۔" گھر آ کر اماں نے جو بک دیکھی تو اچھنبے سے پوچھا۔

" یہ وہیں بک اسٹال سے لی ہے۔" اس نے اطمینان سے جواب دیا۔

" ان ترکیبوں کے پیچھے کتنے پیسے پھینک کر آئی ہے۔" وہ ڈپٹ کر بولیں۔

" اماں سو روپے کی لی ہے۔ دیکھیں تین سو کی ہے مگر سو کی ملی ہے کتنے مشہور شیف نے مرتب کی ہے۔" وہ جوش سے کہتی رہی۔ یہ غور کیے بنا کے اماں کا چہرہ مارے طیش کے سرخ ہو رہا ہے۔