مختلف اقسام کے اٹالین' چائنیز اور فرانسیسی کھانوں کے نوش جان کرنے کا تو خواب میں بھی سوچا نہیں جاتا تھا۔
سائٹ ٹاؤن میں تعمیر شدہ پرانے وقتوں کا بڑے سے آنگن والا گھر منیہ کی سلطنت تھا۔ جس کے کچے آنگن کی مٹی کو وہ برابر پانی کے چھڑکاؤ سے دباتی رہتی تھی' ورنہ ایک جھونکے میں مٹی کی ہلکی سی تہہ پورے کمروں میں کٓجم جاتی تھی۔ گھریلو کام کام گھر کی صفائی۔ یہی مصروفیات دل لگانے کا سبب بنتیں۔ ننھا فہد گھر کی رونق تھا۔ اس کی معصوم شرارتوں سے ایک ہلچل کا احساس نمایاں رہتا تھا۔
کل ہفتے کو ہی ابا نے مرغی لا کر رکھ دی تھی۔ اور اب وہ مکمل طور پر بھوننے میں مگن تھی۔ کوئی دو تین ڈشز تیار تو نہیں کرنی تھیں۔ جو ہڑبونگ کا احساس جاگتا۔ پھلکے بنا کر ہاٹ پاٹ کی زینت بنا چکی تھی۔
" ویسے کیا بات ہے ہر سنڈے کو روایتی پاکستانی کھانے تیار ہوتے ہیں۔ ڈائجسٹوں کی ہیروئن تو چکن چاؤمن' چکن شاشلک تیار کرتی ہے ۔ اور میں تو ہر سنڈے کو پوٹاٹوچکن تیار کرتی ہوں۔" وہ اپنی سوچ پر خود ہی ہنس دی۔
" ارے ہاں وہ تو ہیروئن ہوتی ہے جب ہی تو بدیسی کھانے پکاتی ہے میں کوئی ہیروئن کا مقابلہ کر سکتی ہوں۔" اس نے خود کو تسلی دلائی۔
" کل میں بھی اماں کے ساتھ بازار جاؤں گی' ورنہ اماں سبزیاں مہنگی بہت ہیں کہہ کر آگے چل دیں گی۔" اس نے ارادہ کیا ۔ گیٹ دھڑدھڑایا۔
" ضرور آپا آئی ہیں۔" وہ قیاس کرتی دروازے تک آئی حسب توقع وہ آپا کو دیکھ کر وہ کھل اٹھی۔ ندیم بھائی ان کو گیٹ سے ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
" السلام و علیکم کیا حال ہیں؟" وہ ان کے گلے لگی۔
" ٹھیک ہوں گڑیا تم سناؤ۔" وہ مسکرائیں۔
" اندر تو آنے دے وہیں باتیں نہ تمام کر لینا۔" اماں نے آواز لگائی۔
" آداب اماں حضور' آپا نے سر جھکا کر دست شفقت پھیروایا ' بچے آزادانہ گھوم رہے تھے۔
" بھابی لگتا ہے گھر پر نہیں ہیں۔" آپا نے گھر پر چھاۓ جمود سے اندازہ لگایا۔ورنہ اب تک فہد آ کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا۔
" ہاں کل ہی گئی ہے۔" اماں نے جواب دیا۔
" اور کیا چل رہا ہے۔" وہ آنگن میں بچھی چارپائی پر دراز ہو گئیں۔
" منیہ سالن نہ جلے دھیان رکھنا۔" اماں نے اس کی توجہ کچن کی طرف مبذول کروائی۔
" نہیں اماں ابھی تو شوربا ڈال کر پکنے رکھا ہے۔"اس نے بھی ٹانگیں اوپر کر کے پشت کو تکیے سے لگایا۔
" باتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کرنے سے پہلے بہن کو پانی کا پوچھ لو۔" انہوں نے اسے شرمندہ کیا
" اوہ سوری آئی۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔