غصہ تو دراصل اسے اس بات پر آ رہا تھا کہ بجلی کی انکھ مچولی نے گھر کا پی سی خراب کر دیا تھا۔ اب اگر کل اضافی چھٹی نہ ہوتی تو وہ یونیورسٹی جا کر کمپیوٹر لیب میں اپنا کام مکمل کر لیتی کہ پیر کو ہر حال میں یہ اسائنمنٹ جمع کروانا تھا' ورنہ دوسری صورت میں سر اظہر کی طنز میں ڈوبی ہوئی باتیں سننی پڑیں گی ۔
" تو۔ ڈئیر آپی! ہم چاند ہی پر تو رہتے ہیں۔"
سحرش نے مہوش کی ساری تقریر ایک کان سے سنی' اور دوسرے سے اڑا دی اور صرف اپنے مطلب کی بات یاد رکھی۔ ویسے بھی جب مہوش غصے میں ہوتی تو سحر یونہی اوٹ پٹانگ باتیں اور سوالات کر کے اس کا غصہ کم کرتی اور ساتھ ساتھ ' آپی' آپی بھی کہے جاتی کہ جانتی تھی کہ اس سے یہ تین سال بڑی بہن بہت حساس اور زمہ دار طبعیت کی مالک ہے۔
جبکہ مہوش نے اسے یوں دیکھا گویا اس کی دماغی حالت پر شبہ کیا ہو کہ شاید اس کی ڈانٹ بھری تقریر کا الٹا اثر ہو گیا ہے۔
" ایسے کیا دیکھ رہی ہو سمجھ میں نہیں ایا کیا؟" سحرش نے بہن کی انکھوں کے اگے ہاتھ لہرایا۔
" اچھا یہ بتاؤ چاند کیا ہوتا ہے؟" ایک لمحے کے توقف سے سحرش نے دوبارہ بہن سے سوال کیا۔
" چاند۔۔۔۔ میرے معلومات کے مطابق چاند ایک بنجر فلکی جسم ہے' جس پر نہ ہوا ہے اور نہ پانی۔ اور جو چمکنے کے لیے بھی سورج سے روشنی مستعار لیتا ہے۔" مہوش جو جانتی تھی بتا دیا۔
" تو بس۔۔۔۔ یہی تو پاکستان کی بھی خصوصیت ہے۔ پاکستان کی سر زمین بالکل چاند کی طرح ہوتی جا رہی ہے ' نہ روشنی ' نہ گیس' نہ پانی اور چونکہ واپڈا اور کے ای ایس سی کی کرم فرمائی سے بے چارے پنکھے بھی اپنے پر سمیٹے رکھتے ہیں تو ہوا بھی نہیں۔۔۔۔ کیوں رہتے ہیں نا ہم چاند پر۔" سحرش نے فخریہ نادیدہ کالر کھڑکھڑائے انداز اتنا زبردست تھا سمجھانے کا کہ مہوش کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
" وہ مارا۔" سحرش نے ہاتھ اٹھا کے نعرہ لگایا۔
" تم نہیں سدھرو گی۔" مہوش نے ہنستے ہوۓاس کے سر پر چپت لگائی۔
" اس صدی میں تو مشکل ہے حضور ۔ ویسے بھی تم ہی تو کہتی ہو جیسے حکمران ویسی عوام۔ " سحر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
اسی اثنا میں بیل بجی۔
" دیکھو سحرش! امی' ابو نہ اۓ ہوں۔" مہوش نے کہتے ہوۓ کتاب بند کر دی کہ وہ دونوں مہینے کا سامان لینے گئے ہوۓ ہوۓ تھے۔
" ارے یہ کیا۔ آپ دونوں خالی ہاتھ۔" سحرش حیران ہوئی۔
" کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ اتنا مہنگا پٹرول پھونک کے گئےاور سامان بھی نہ خرید پاۓ۔" امی سخت جھنجلاہٹ کا شکار تھیں۔
" کیا مطلب؟" مہوش نے ابو کی طرف رخ کیا۔
" ارے بیٹا! کوئی وی آئی پی شخصیت آ رہی تھی۔