اس سے شاید برداشت نہ ہوا تھا اس لیے جھٹ سے گلہ کیا۔ امی اور شازیہ خاموش کی خاموش رہ گئیں۔
" اس کی تو نئی نئی شادی ہوئی ہے ' اس لیے زیادہ کام والا لیا ہے۔۔۔۔" امی نے کمزور سے لہجے میں توجیہہ پیش کی تھی مگر وہ بھی شکیلہ تھی ۔ جھٹ شروع ہو گئی۔
" امی تو نئی نئی شادی کا یہ مطلب ہے کہ اس کے لیے اتنا مہنگا سوٹ لیا اور میرے لیے یہ سستا سا؟" اس نے بے حد تلخ لہجے میں پوچھا۔ حالانکہ اس کا والا بھی ایسا سستا کہاں تھا۔ اچھا خاصا خوب صورت اور مہنگا تع تھا۔
وہ دو چار منٹ تو کافی زور زور سے بول کر اپنے غصے کا اظہار کرتی رہی اور شاید سنتی رہی پھر شازیہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا تو وہ بھی بول اٹھی ۔
" آپا ! میرا نیا نیا سسرال ہے اور امی نے تو اس لیے لیا تھا کہ عزت بنی رہے مگر آپ سے شاید برداشت نہیں ہوا۔۔۔۔"
اس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ شکیلہ کا پارہ یک دم چڑھ گیا۔ وہ بیگ اٹھا کر فورا واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی' ابو اور شازیہ سب ہی نے اس کی منت سماجت کی ' منایا بھی مگر وہ بھی ضد کی پکی تھی۔ بس رکشہ لیا اور گھر واپس آ گئی۔ ہاں البتہ امی کے گھر سے نکلتے نکلتے وہ سبز جورا اپنے بیگ میں ڈالنا نہ بھولی تھی( پہلےتو جی میں ایا کہ اسے وہیں چھوڑ اۓ مگر پھر یہ سوچ کر کہ شازیہ پر وہ جوڑا کتنا جچے گا' اس نے فورا اسے اٹھا لیا)۔
" بس وہ دن اور اج کا دن ' میں نے شازیہ سے دوبارہ کلام نہیں کیا۔" اس نے بڑے فخر سے سعیدہ کو سارا قصہ سنایا تھا۔ سعیدہ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
"اول تو شازیہ کے میاں کی ٹرانسفر ہی کراچی ہو گئی ہے' اس لیے اب وہ کم کم ہی آتی ہے میکے۔ مگر جب آتی ہے تو میں جاتی نہیں' جاؤں تو اس سے بولتی نہیں۔" وہ بڑی خوش ہو کر بتا رہی تھی۔ سعیدہ اب بھی حیران سی اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ بالاخر ہمت کر کے بولی۔
" تو باجی!" تسی صرف ایک سوٹ کی وجہ سے بہن سے لڑ پڑے؟" اس نے استفہامیہ انداز سے شکیلہ کی طرف دیکھا تو شکیلہ نے نگاہ چرا لی اور اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔
" باجی ! ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو ' ایسے بھی ایک ہی تو بہن ہے اپ کی ۔" سعیدہ نے ہولے سے کہا۔" اور سوٹ" وہ کہہ کر استہزائیہ انداز میں ہنسی" سوٹ تو باجی پرانا بھی ہو گیا۔" اس نے اب بھی وہ قمیض ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی ۔" بس اتنی سی معیاد ہوتی ہے کپڑوں کی جی ' دو تین سال بعد پرانے ہو جاتے ہیں اور پھر گرد ' مٹی صاف کرنے کے کام اتے ہیں۔"
اس نے بڑے سیانے انداز میں کہا تھا۔ شکیلہ بڑے ہولے سے "ہوں " کہہ کے رہ گئی۔
" اس لیے تو مجھے ان کپڑوں سے کوئی پیار نہیں۔"
سعیدہ نے فرنیچر صاف کرتے ہوۓ دوبارہ بات کی پھر سرسری سے انداز میں شکیلہ کی طرف دیکھا۔ مگر شکیلہ کو نہ جانے اب کیا ہوا تھا۔ وہ گم صم سی کھڑی کپڑے استری کیے جا رہی تھی۔