" باجی جی ! میری مانو تو صلح کر لو بہن سے' ان کپڑوں کا کیا ہے۔ آج نئے ہوتے ہیں تو کل پرانے ہو جاتے ہیں۔۔۔ہرشے ہی پرانی ہو جاتی ہے باجی۔" اس نے فون اسٹینڈ صاف کرتے ہوۓ ہولے سے کہا مبادا شکیلہ برا ہی نہ مان جاۓ مگر شکیلہ ہنوز اپنے کام میں لگی رہی۔
کچھ دیر سعیدہ یوں ہی صفائی کرتی رہی پھر مکمل کر چکی تو دوپٹا جھاڑ کر اچھی طرح لپیٹا اور شکیلہ کو سلام کیا تھا۔
" اچھا باجی' کپڑے برتن تو میں پہلے ہی دھو دیے تھے۔ اب جھاڑ پونچھ بھی کر دی ہے۔ اب مجھے اجازت دو' میں باجی صفیہ کے گھر جا رہی ہوں۔" اس نے شکیلہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔ " آپ دروازہ بند کر لو۔"
وہ یہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ تیز تیزچلتی دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ شکیلہ بے جان سے قدم اٹھاتی دروازے تک آئی اور چٹخنی لگا کر واپس صوفے پر جا بیٹھی۔ اب اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ باقی کپڑے استری کرے' اس لیے خاموش ' کافی دیر تک وہیں بیٹھی رہی۔ اس کی نگاہ بار بار فون اسٹینڈ کے پاس پڑی اس سبز قمیض کی طرف جا رہی تھی جو کبھی بے حد خوب صورت تھی مگر اب پرانی ہو چکی تھی۔
وہ آدھ ' پون گھنٹہ وہیں بیٹھی ' سعیدہ کی باتوں پر غور کرتی رہی پھر بالاخر کوئی خیال ذہن میں آیا تو وہاں سے اٹھی اور قمیض جا کر اسٹور میں رکھی اور خود فون اسٹینڈ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ کتنی ہی دیر وہیں کھڑی رہی۔
" تین سال ہو گۓ' میں نے شازیہ سے ڈھنگ سے بات ہی نہیں کی ۔" اس نے ندامت سے سوچا پھر صوفے پر بیٹھ کر اس نے فون گود میں رکھا اور شازیہ کا نمبرڈائل کرنے لگی۔ آخر بہن سے بات بھی تو کرنی تھی ۔۔۔اسے منانا تھا۔
" ایک ہی تو بہن تھی اس کی ۔" اس کے زہن میں سعیدہ کے الفاظ گونج رہے تھے اور وہ اب مطمئن سی بیٹھی فون ریسیو کیے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔