جسے عرف عام میں شرم و حیا کی پتلی کہتے نہ؟ ایسی تھی وہ. نام تو اسکا شریفہ خانم تھا.
مگر وہ اپنے نام کی مناسبت سے کہی زیادہ با حیا اور با حجاب نکلی. یوں خاندان بھر میں
شریفہ کے بجاتے شرمیلی کے نام سے مشہور ہوگئی. مرد تو کجہ عورتوں کا بھی سامنانا
بھی نہ کر سکتی. گھر میں جو کبھی رشتے کی چچیاں، ممانیاں، پھوپھیاں خالائیں آجاتی تو
شرمیلی کی ڈھونڈھیا مچتی. جانے کب کس وقت بلی کی مانند کھسک جاتی، اور پھر کسی بند
کمرے کے کونے میں منہ چھپاتے ملتی. یتیم و یسیر .بچی تھی.................... سب ہی اسکے
سر پر دست شفقت پھیرنا چاہتے. بلا بلا کر پاس بٹھانا چاہتے، اسکی دلداری کرنا چاہتے.
مگر وہ تو کسی کے سامنے آنے پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی. اور جو زبردستی پکڑ کے لایا جاتا
تو چہرہ گردن سے جدا نہ کرتی. کبھی آنچل میں منہ چھپا جاتی. جو کبھی امی جان کی ڈانٹ
پھٹکار کے بعد کسی کو سلام کرنے آجاتی تو ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ جاتے. چھوٹی سی ناک بلکل
سفید پڑ جاتی اور پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمکنے لگتے. کوئی بات کرتا تو چہرہ کئی
رنگ بدلنے لگتا.گبراہٹ یوں طاری رہتی جیسے ریل کی پٹڑی پار کر رہی ہو. منہ سے کوئی
فقرہ سلامت ادا نہیں ہوتا. اور چہرہ تو اسنے کبھی کسی کا جی بھر کے دیکھا ہی نہیں تھا.
سب کا خیال تھا کے عمر کے ساتھ ساتھ بیجا شرم اور احساس کمتری کم ہوجاتے گا تو عام
بچوں کی طرح شرمیلی بڑوں کے ساتھ نہ سہی تو اپنی عمر کے لوگوں کے ساتھ گھل مل گی.
البتہ امی جان کا رویہ اسکے ساتھ جداگانہ تھا. لوگوں کے اعتراضات پر سیخ پا تو نہ ہوتی
مگر انکو شرمیلی کے اس بچگانہ بلکے دوسرے لفظوں میں احمقانہ رویے پر اعترض بھی
نہیں تھا. بھی شرم و حیا تو عورت کا زیور ہوتا ہے. آجکل کی بے حجاب اور نڈر لڑکیاں
انکو بلکل پسند نہیں تھیں. بے ڈھنگے کپڑے پہنتی، بے ہودہ بال بناتیں اور مردانہ وار
آزادانہ گھومتی رہتیں. بڑوں کو یوں مخاطب کرتیں جیسے انکی ہم عصر ہوں اور والدین
کو اپنا دوست سمجھتیں اور آجکل کے والدین بھی انکی نگاہ میں بودے تھے.
اب شرمیلی کی یہی بدقسمتی کیا کم تھی کے لڑکپن میں ہی والدین چھوڑ گئے اور اماں جان کی
گود میں آگری. اماں جان جو کسی کی دادی تھیں، کسی کی نانی، کسی کی چچی اور کسی کی
پھوپھی ماں. مگر سب انہیں اماں جان کہتے تھے. اصل رشتے سے کوئی نہیں بلاتا تھا.