SIZE
3 / 8

بھائی جان فورا بولے اور عجیب طرح بولے. میں انکی آواز پہچان ہی نہ سکا. " ہم اکبر اور اطہر ہیں"

"اوے بیڑا تر جاتے تمہارا". وہ پتھر پھینک کر ہاتھ جھاڑتے هوئے بولا. "میں تو ڈر گیا تھا تم تو میرے سائیں ہو. میرا

دل میرے چار طرف دھڑکنے لگا. میں بھی کہوں یہ ہاتھ ہاتھ بھر کی چیزیں کون کھڑی ہیں...." اور پھر ہنسا.

"تم کون ہو"؟ اب کے بھائی جان باقائدہ کڑکے.

وہ بولا. میں تمہارا دھوبی ہوں.زمان دھوبی. کیا کر رہے ہو ادھ رات کو؟"

میں پہلی بار بولا. "ہماری چھٹیاں ختم ہوگئی ہیں. ہم کیمبل پور جارہے ہیں. ہم شیرو میراثی اور نورے ساربان

کا انتظار کر رہے ہیں".

"تم اس وقت کیا کرتے پھرتے ہو"؟ بھائی جان نے سوال ایسے رعب سے پوچھا جیسے استاد بچوں سے پوچھتے ہیں.

زمان بولا. "میں پتھر کاٹنے جا رہا ہوں. روز اس وقت گھر سے نکلتا ہوں. صبح کی نماز نیلی ڈھیری پر پڑھتا ہوں.

پھر وہاں نیلا پتھر کاٹتا ہوں. تمہارے چچا نیا مکان بنوائیں گے نیلے پتھر کا".

"کیا دھوبی بھی پتھر کاٹتے ہیں"؟ بھائی جان نے حیران ہوکر پوچھا.

اور زمان نے جواب دیا. "جب دھوبی کے دھونے کو کچھ نہ ہو تو اسے پتھر ہی کاٹنے چاہییں. ورنہ وہ انسانوں کو

کاٹنے لگے گا". وہ ذرا سا روکا مگر ہمیں خاموشی پا کر ہنس دیا. پھر بولا. "کیا کروں. چھے بچے ہیں. نہ انکی ماں

ہینا دادی. سب مچھ میں گھسے چلے آتے ہیں بلی کے بچوں کی طرح. سب کا دوزخ بھرنا ہوتا ہے اور خدا میرا

سہارا ہے اور میں انکا سہارا ہوں"""بھائی جان، یہ سہارا کیا ہوتا ہے"؟ مگر بھائی جان نے تو میری بات سنی ہی نہیں.

تالی بجادی. "آگیا نورا!" انہوں نے نعرہ مارا.

"اب نیلی ڈھیری پر ملاقات ہوگی". زمان دھوبی بولا. "خوشاب کا راستہ وہیں سے گزرتا ہے نا. میں تمہیں ایک نیلا

پتھر دوں گا جو میں نے چھپا کر رکھا ہوا ہے. اس میں گہری نیلی لہریں ہیں اور نیلی نیلی چڑیاں سی اڑ رہی ہیں اور