اماں نے ہمیں صبح ہی جگا دیا. "اٹھو بیٹا! منہ ہاتھ دھو لو. کپڑے بدل لو. شیرو میراثی اور نورا ساربان بس پہنچنے ہی
والے ہوں گے.
چاند سیدھا ہمارے سر پر چمک رہا تھا.
ہوا اتنی خاموشی سے چل رہی تھی کہ بیری کے صرف ساتے میں کہی کہی جنبش تھی. اس سے اندازہ
ہوتا تھا اپر پتے ہل رہے تھے. پنجرے میں سوتا ہوا طوطا اپنے سر کو ایک طرف کے کچھ یوں چھپاتے پڑا
تھا جیسے اسکا سر کاٹ دیا ہو. بلی روئی کا ایک گالا بنی بیٹھی تھی. "مانو!" میں نے اسے بلایا تو وہ اٹھی.
انگڑائی لی اور اپنے قد سے ڈیڑھ گنا لمبی ہوگئی. پھر وہ وییں سے کود کر میری چارپائی پر آبیٹھی اور خر
خر کرتی میری گود میں گھسنے لگی.
"تم نے تو بلی کی عادتیں بگاڑ دی ہیں". اماں جو ہماری خاطر چوری بنانے کے لئے چولہا جلا رہی تھیں، بولیں"
"اب تمہارے جانے کے بعد یہ دو تین دن تک روتی رہے گی.
بھائی جان نے پوچھا، "اور اماں ہمارے چلے جانے کے بعد آپ تو نہیں روئیں گی نہ"؟
"نہیں تو" اماں بولیں اور پھر رونے لگیں.
ہم سب چارپائی سے نیچے کود کر اماں سے لپٹ گئے اور وہ ہم دونوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے هوئے روتی
رہیں اور کہتی رہیں. "میں کیوں روؤں"" میں زندگی بھر کیا کم روئی ہوں جو اب بھی روتی رہوں جب میرے بچے
میرا سہارا بننے جا رہے ہیں. پھر جب تم دونوں نوکر بن جاؤ گے نہ تو میں اپنی گزری ہوئی زندگی سے جی بھر
کے بدلے لوں گی. میں نوار کے پلنگ پر سویا کروں گی. میں ریشم کی چادر اوڑھوں گی. میں تلہ گچ جوتے پہنوں
گی اور تمہاری بیویوں سے پاؤں دبواؤں گی".
"ہماری بیویاں آج کل کہاں رہتی ہیں اماں"؟ میں نے پوچھا
اور بھائی جان ہنسنے لگے . "پاگل ہے یہ چھوکرا، شرم نہیں آتی"؟
اماں بھی ہنسنے لگیں اور مجھے سینے میں بھینچ کر بولیں. وہ تمہارے چچا کے بالا خانے کی ممٹی پر ایک بڑا
سا ستارہ چمک رہا ہے نہ؟ اس میں رہتی ہیں. یہ ستارہ تھوڑا رھوڑا ہل رہا ہے، بتاؤ کیوں ہل رہا ہے"؟