گھونسلے سے مالس.
باپ بیٹے روتے هوئے گاؤں کے زمینداروں کے پاس گئے. وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے. کئی بار انکو اپنے ہاتھوں
پیٹ چکے تھے. چوری کی علت، وعدہ پورا نہ کرنے کی علت میں. پوچھا کیا ہے بے گھسو؟ روتا کیوں ہے. اب تو تیری صورت ہی نظر
نہیں آتی. اب مملوم ہوتا ہے کہ تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاھتے".
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے هوئے کہا. "سرکار بڑی بپت میں ہوں. مادھو کے گھر والی رات گجر گئی. دن
بھر تڑپتی رہی سرکار. آدھی رات تک ہم دونوں اسکے سرہانے بیٹھے رہے. دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا. مگر ہمیں دگا دے گئی.
اب ک ایک روٹی دینے والا نہیں رہا مالک. تباہ ہوگئے. گھر اجڑ گیا. آپ کا گلام ہوں. اب آپ کے سوا اسکی مٹی کون پار لگاتے گا. ہمارے
ہاتھ میں ت جو کچھ ہوا، وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا. سرکار کی ہی دیا ہوگی تو اسکی مٹی اٹھے گی. آپ کے سوا اور کس کے دوار پر
جاؤں.
زمیندار صاحب رحمدل آدمی تھے. مگر گھسو پر رحم کرنا کلی کمبل پر رنگ چڑھانا تھا. جمائیں آیا کہ دیں" چل دور ہو یہاں سے لاش گھر
میں رکھ کر سڑا". یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا آج جب غرض پڑی تو خوشامد کر رہا ہے. حرام خور نہیں کا بدمعاش". مگر یہ
غصّہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا. طوعا و کرہا.
دو روپے نکال کر پھینک دیے مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی اسکے منہ سے نہیں نکلا. اس طرف تاکا تک نہیں. گویا سر کا بوجھ اتارا ہو.
جب زمیندار صاحب نے دو روپے دیے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرات کیوں کر ہوتی. گھسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈھورا
پیٹنا جانتا تھا. کسی نے دو آنے دیے اور کسی نے چار دیے. ایک گھنٹے کے بعد گھسو کے ہاتھ میں پانچ روپے کی معقول رقم آگئی. کسی
نے غلہ دے دیا کسی نے لکڑی اور دوپہر کو گھسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے.
گاؤں کے رقیق القلب عورتیں لاکر لاش کو دیکھتی تھیں اور اسکی بے بسی پر دو دو بوند بہا کر چلی جاتیں تھیں.
بازار میں پہنچ کر گھسو بولا. "لکڑی تو جلانے بھر کو مل گئی ہے. کیوں مادھو".
مادھو بولا ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہیے.
"تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں".
"ہاں ور کیا، لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی. رات کو کفن کون دیکھتا ہے".
"کیسا برا رواج ہے، کہ جس جیتے جی تن ڈھانپنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے، اسے مرنے پر نیا کفن چاہیے".
"اور کیا رکھا رہتا ہے، یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کوئی دوا دارو کرتے".