SIZE
3 / 7

گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں، منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہیے مگر وہ پھر بھی ڈال جاتے ہیں. اور جب سب نے منہ دھو لیا

تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی. کھڑا نہ ہوا جاتا تھا. جھٹ پٹ جاکر اپنے کمبل پر لیٹ گیا. ایسا

دریا دل تھا وہ ٹھاکر".

مادھو نے ان تکلفات کا مزہ لیتے هوئے کہا. "اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا"

"اب کوئی کیا کھلائے گا"؟ وہ جمانا دوسرا تھا. اب تو سب کو کھبایت سوجھتی ہے. سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو. کریا کرم میں مت خرچ

کرو. پوچھو غریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے؟ مگر بٹورنے میں تو کوئی کمی نہیں ہے. ہاں کھرچ میں کھبایت سوجھتی ہے."

"تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی'.

"بیس سے جیادہ کھائیں تھیں"

"میں پچاس کھا جاتا".

"پچاس سے کم میں نے بھی نہیں کھائی تھیں، اچھا پٹھا تھا. اب تو اسکا آدھ بھی نہیں ہے". آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہی الاؤ کے

سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں میں پیٹ ڈالے سو رہے تھے. جیسے دو بڑے اژدہے کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور وہ بڑھیا ابھی تک

اندر کراہ رہی تھی.

..................................................

صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اسکی بیوی ٹھنڈی ہوگئی تھی. اسکے منہ پر مکھیاں بھنک رہیں تھیں. پتھرائی ہوئی

آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں. سارا جسم خاک سی اٹا ہوا تھا. اسکے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا.

مادھو بھاگا ہوا گھسو کے پاس آیا پھر دونوں زور زوے سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے. پڑوس والوں نی یہ آہ و زاری سنی

تو دوڑے هوئے آے اور رسم قدیم کی طرح غمزدوں کی تشفی کرنے لگے.

مگر زیادہ رونے دھونے کا موقع نہیں تھا کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی. گھر میں سے پیسہ تو اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے