مادھو کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ کوٹھری کے اندر چلا گیا تو گھسو آلوں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا. تو بولا" مجھے وہاں ڈر لگتا ہے".
"ڈر کس بات کا، میں تو یہیں ہوں".
"تو تمہی جاکر دیکھو نہ".
"میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اسکے پاس سے ہلا بھی نہ تھا، اور پھر مجھ سے لاجائے گی کہ نہیں، کبھی اسکا منہ نہیں
دیکھا. آج اسکا اگھرا ہوا بدن دیکھوں؟ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہوگی. تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی".
"میں سوچتا ہوں کہ بال بچہ ہوگیا تو کیا کریں گے" سونٹھ، گڑ، تیل کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں".
"سب کچھ آجاتے گا، بھگوان بچہ دے تو". جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی ٹیب بلا کر دیں گے. میرے تو لڑکے هوئے، گھر میں
کچھ بھی نہیں تھا مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا.
جس سماج رات دن محنت کرنے والوں کی حالت انکی حالت سے کچھ بہت اچھی نہیں تھی. اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی
کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی.
ہم تو کہیں گے گھسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی
فتنہ پرداز جماعت میں داخل ہوگیا. ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کےآئین و آداب کی پابندی بھی کرتا. اس لئے یہ جہاں اسکی
جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے هوئے تھے. اس پر سارا گاؤں انگہشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یرہ تسکین تو
تھی ہی کہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اسکی سادگی اور بے زبانی
سے دوسرے بیجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے.
دونوں آلو نکل کر جلتے جلتے ہی کھانے لگے. کل سے کچھ نہیں کھایا تھا. اتنا صبر نہ تھا انکو ٹھنڈا ہو جانے دیں. کئی بار دونوں کی
زبانیں جل گئیں.چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصّہ تو زیادہ گرم معلوم نہ ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصّہ زبان
اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے. وہاں اسے ٹھنڈا
کرنے کے لئے کافی سامان تھا. اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے حالانکہ اس میں کوشش انکی آنکھوں سے آنسو نکل آتے.
گھسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا. اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی، وہ اسکی
زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اسکی یاد تازہ تھی. وہ بولا" وہ بھوج نہیں بھولتا. تب سے اس طرح کا کھانا اور پیٹ نہیں ملا".
"لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھی سب کو، چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ اور تین طرح
کے سوکھے ساگ، ایک رسے داری ترکاری، دہی،چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں اس بھوج میں کتنا سواد ملا. کوئی روک نہیں تھی جو چاہے
چیز مانگو. اور جتنا چاہو کھاؤ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کے کسی سے پانی نہ پیا گیا، مگر پروسنے والے ہے کہ سامنے گرم گرم