دکھ اور غم سارے کے سارے ہی بھاری نہیں ہوتے . انکی بھی الگ الگ قسمیں ہوتی ہیں ' باوجود اس کے کہ ان کو برداشت کرنے ، سہنے والا دل ایک ہی ہوتا ہے . جیسے ریشم کے سرسراتے کپڑے کی قسمیں ہوتی ہیں . الگ ، الگ جدا، جدا مہین سے مہین ، قیمتی سے قیمتی لیکن ان کے دھاگے تھوکنے والا کیڑا ایک ہی ہوتا ہے . رشیم کا کیڑا بالکل ویسے ہی ....
" کیا تھا ارسل آفس سے آدھی چھٹی لے کر مجھے چھوڑ آتے ." اس نے بھی گھر سے قدم نکالتے وقت ایک مزید ہلکا سا غم دل کو لگایا .
چلچلاتی دھوپ میں بہتے پسینے کو بیزاری بھری نزاکت سے صاف کرتے ہوئے اس نے کوئی پچیسویں بار اپنے غارت موڈ ، واہیات موسم ، پریشان زندگی اور بدتمیز اولاد جیسے ہر مسلے کا ذمے دار ، مشرقی عورتوں کی طرح شوہر کو ٹھہرا کر بھڑاس کا روزن تلاشا .
سامنے سے ویگن آ رہی تھی لیکن مطلوبہ وین نہیں تھی اسے سرے سے ویگن مطلوب ہی نہیں تھی . اسکی مندی نگاہیں ، تیز دھوپ میں گھور گھور کر یہاں وہاں چنگچی یا کوئی رکشا تلاش کر رہی تھیں . جب ویگن کو قریب آتے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح مشائم نے چھلانگ لگا کر اس کے سامنے آنے کی کوشش کی . جس کو اریبہ نے بر وقت مٹھی میں دبوچی کلائی کو جھٹکا دے کر پیچھے کیا .
" اب اگر بس کو دیکھ کر ایسے اچھلا ناں.....! تو دھکا دے دوں گی . اسی کے آگے ." سر جھکا کر اس نے مشائم کے کانوں میں منہ دے کر حلق سے کسی ڈائن کی مشابہہ آواز نکالی . اور مشائم عرف مشو واقعی میں سہم سا گیا .
ابھی وہ اس کی اس خطرناک حرکت کا مکمل سدباب کرنا چاہتی تھی لیکن بات ادھوری رہ گئی . روڈ کے دوسری طرف سے موڑ کاٹ کر ایک خالی رکشا چلا آ رہا تھا .
اس نے دکھتے ہوئے کندھے پر ڈالا ہوا بیگ مزید جمایا ... جس سے درد کم ہونے کی بجاۓ اور زیادہ ہی ہوا لیکن وہ نظر انداز کرتی ہوئی مشو کی کلائی پکڑے آگے کی طرف بڑھ گئی .
" ایں.... اتنا زیادہ کرایا ...."
رکشے والے نے کرایا کیا بتایا ..... مانو باقاعدہ ڈیمانڈ ہی کر ڈالی. ابھی اس کی حیرت کے بعد کرایا کم کرنے کی بحث شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ رکشے والا خود ہی شروع ہو گیا .
" سی این جی بند ہے باجی ، اتنے میں تو خالی پٹرول ہی آئے گا . وہاں تک کے تو تین سو روپے بنتے ہیں ، میں نے تو صرف ڈھائی سو بولے ہیں ."