" بھائی اگر اپکا پیار اور تھوڑی سی توجہ انہیں مل جاۓ تو ان کی شخصیت کی یہ بے اعتمادی جو آپ کو تکلیف دیتی ہے ختم ہو سکتی ہے۔" عنبر نے ایک بار پھر اسے سمجھایا۔
" تم خوامخواہ اس جاہل کی وکالت کر رہی ہو۔ لکھ لو ایسی شکلیں بدلنے والی نہیں ہوتیں۔" حسن شعلہ بار نگاہوں سے اسے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔ تو سارہ بھی آنکھوں میں آنسو لیے خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی۔
" کیا ہوا عنبر کچھ اپ سیٹ الگ رہی ہو!" فروا سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ بولی؟
" ہر روز ایک حوا کی بیٹی کی آدم کے بیٹے کے ہاتھوں توہین و تذلیل دیکھتی ہوں تو پھر آپ سیٹ تو ہونا ہی ہے۔ عنبر دکھ بھرے انداز میں بولی۔
" اوہ' وہی تمہارے بھائی اور بھابی کا مسئلہ؟" فروا نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
" ہاں وہی مسئلہ۔۔۔۔ فروا یہ مرد بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ زبردستی اپنی پسند کے خلاف شادی تو کر لیتے ہیں مگر پھر اس زبردستی کی سزا ساری زندگی اس لڑکی کو دیتے ہیں جو بالکل بے قصور ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ مرد کون سا لڑکیوں کی طرح مجبور ہوتے ہیں جو نافرانی کریں گے تو تمام عمر بد دعائیں اور سزائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں۔۔۔۔ یہ تو بالکل بطخ کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔۔ پر جھاڑے اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔۔ کسی کی بد دعا اور ناراضی ان کا کیا بگاڑ لیتی ہے!" دکھ سے کہتے ہوۓ عنبر کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
" عنبر ڈونٹ وری۔۔۔۔ مایوس نہ ہو اللہ ایک دن سب کچھ اچھا کر دے گا۔" فروا نے اسے محبت سے گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
" اور تم سناؤ! تمہارے وہ ہینڈسم سے ٹیچر کیسے ہیں!" عنبر نے تلخ موضوع سے اپنا دھیان ہٹاتے ہوۓ پوچھا۔
" وہ بالکل فٹ فاٹ۔۔۔۔ بے حد فرینڈلی ہیں۔۔۔۔۔ بہت خوش مزاج ہیں۔" فروا جوش سے بولی۔
" یعنی خوب صورتی اور خوب سیرتی دونوں یکجا ہیں!" عنبر ہنسی۔
" بالکل۔۔۔۔ تمہارے بھائی کا سنتی ہوں تو مردوں سے خوف آنے لگتا ہے اور جب اپنے ٹیچر کا سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ سب مرد بُرے نہیں ہوتے۔۔۔۔ ہائے کاش! وہ میرے ایج فیلو ہوتے۔" فروا نے آہ بھرتے ہوئے عنبر کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ " ارے ارے خود کو سنبھالو۔۔۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے انہوں نے تمہارے اوپر جادو کردیا ہے۔ " عنبر کی دہائی پر فروا مسکرانے لگی تھی۔
" اج میں نے آخری پیریڈ بنک کرنا ہے!"
" کیوں ؟ آج تو بہت اہم لیکچر ہے!" عنبر حیران ہوئی۔
" وہ اصل میں آج میرے ٹیچرکی برتھ ڈے ہے۔ میں نے ان کے لیے گفٹ لینے مارکیٹ جانا ہے تم چلو گی میرے ساتھ؟" فروا نے بتایا۔
" نہیں فروا تم چلی جاؤ۔۔۔۔۔ میں پیریڈ نہیں مس کرسکتی!" عنبر نے مجبوری ظاہر کی۔ اور فروا نے اکیلے جانے کا ارادہ پختہ کر لیا۔
" سارہ بھابی! بھائی ابھی تک نہیں آئے!" عنبر نے پوچھا۔
نہیں وہ کہہ رہے تھے کہ ضروری کام ہے تم لوگ کھانے پر میرا انتظار نہ کرنا!" سارہ نے کہا۔
" یہ بھائی کچھ زیادہ ہی باہر رہنے لگے ہیں !" عنبر تشویش بھرے انداز میں بولی۔
" اچھا ہے باہر رہتے ہیں کم از کم خوش تو رہتے ہیں!" سارہ نم لہجے میں بولی۔
ہائے ری حوا کی بیٹی تو کس مٹی کی بنی ہے کہ ہر حال میں اپنے مجازی خدا کی خوشی کی فکر ہوتی ہے۔ جب کہ تیرا مجازی خدا اس کوشش میں رہتا ہے کہ خوشی کو جتنا ہو سکے تیری زندگی سے دور کر دے!" عنبر نے سوچا۔
" بہت خوش لگ رہی ہو ؟ ہو گئی تمہارے ٹیچرکی برتھ ڈے!" عنبر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
" ہوں بہت مزا آیا۔۔۔۔۔ وہ بعد میں مجھے آئس کریم کھلانے بھی لے کر گئے ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لگ رہا تھا جیسے میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں۔ اس قدر خوش گوار لمحہ تھا جی چاہ رہا تھا کہ وہ یونہی صدا میرے ساتھ رہیں۔" وہ کھوۓ کھوئے انداز میں بولی۔