موہد اور اس کے درمیان بڑی سنجیدگی سے نظروں کا تبادلہ ہوا. اس سے پہلے کے موہد انکار کرتا
اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا جب اس نے کومیل کو بری خاموشی سے اس لڑکی سے
روپے پکڑتے دیکھا.
وہ خاموشی کے ساتھ کومیل کیسے ساتھ اگے بڑھ آیا تھا.
تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ چند قدم چلنے کے بعد موہد نے اس سے پوچھا تھا.
no! جواب کافی مختصر تھا.
محترمہ کافی احمق ہیں. موہد نے تبصرہ کیا تھا.
اس میں کیا شبہ ہے. اس نے لاپرواہی سے کہا.
بغیر واقفیت کے ہمیں فیس جمع کروانے کا فریضہ سونپ دیا.اگر ہم اسکے پیسوں کے ساتھ فرار ہو جایئں .
یا فیس جمع ہی نہ کروائیں تو؟ موہد نے ایک لمحے کے لئے مڑ کر گہری نظروں سے لڑکی کو دیکھتے
هوئے کہا.
کومیل اس بار خاموش رہا تھا.آفس سے فیس جمع کروانے کے بعد جب وہ اس جگہ آے تھے جہاں لڑکی نے
انھیں روپے تھماۓ تھے. وہ لڑکی وہاں سے غائب تھی. وہ کچھ دیر تک وہاں کھڑے متلاشی نظروں سے
چاروں طرف دیکھتے رہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی.
"so what next" موہد نے طویل سانس لیتے هوئے کہا.
اب اس رول نمبر سلپ کا کیا کرنا ہے؟ وہ محترمہ تی لگتا ہے جا چکی ہیں.
یہ سوچتے هوئے کے انکا کام ختم ہوا اور میں حیران ہوں کے اس رول نمبر سلپ کے بغیر یہ کلاس میں اپنا
نام ور رول نمبر کیسے رجسٹرڈ کرواتے گی. اتنا تو پتا ہونا چاہیے کے فیس کی رسید لینی ہے یا رول نمبر
سلپ لینی ہے. اور محترمہ کرنا چاہ رہی ہیں ایم اے انگلش .
موہد نے ادہر ادھر دیکھتے هوئے ناگواری سے تبصرہ کیا تھا.
کومیل اب بھی بغیر کچھ کہے تحمل سے ادھر اودھر نظر دوڑا رہا تھا.
آدھ گھنٹے تک وہ وہی اس کے انتظار میں کھڑے رہے. پھر واپس آگۓ .
وہ کافی خوشی اور جوش کے عالم میں اندر داخل ہوئی تھی. کیوں ثانیہ فیس جمع کروا آئی ہواسے دیکھتے ہی خالہ
نے پوچھا.
ہاں! خالہ جمع کروا آئی ہوں. اس نے چادر اتارتے هوئے جواب دیا.
عالیہ اس کے پاس چلی آئی. یونیوورسٹی جانا کب سے شروع کریں گی آپی. اس نے برے اشتیاق سے پوچھا تھا.
تین تاریخ سے! ثانیہ نے مسکراتے هوئے برے فخریہ انداز سے اپنی کزن کو بتایا تھا.
آپکو ڈر نہیں لگے گا اتنے لڑکوں کے ساتھ پڑھتے؟ عالیہ اب اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی.
ڈرنے والی کون سی بات ہے اور بھی تو اتنی لڑکیاں پڑھاتی ہیں. ثانیہ نے جیسے اس سے ذیادہ خود کو تسلی دی تھی.
ہاں! آپ تو ویسے بھی بہت بہادر ہیں اسی لئے تو خالہ نے لاہور آپکو پڑھنے کے لئے بھیج دیا.
اس کی کزن پر اسکی "جواںمردی " کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی.اور اس میں ثانیہ کا کوئی قصور نہیں تھا.
وہ بات ایسے ہی کرتی تھی جسی بہت نڈر اور دلیر ہو. لیکن یہ باتیں دوسروں کے لئے کم اور اپنے لئے زیادہ
ہوتی تھی. وہ لاشعوری طور پر خود کو ایسی بات کر کے بہلایا کرتی تھی. ورنہ وہ جس قدر احمق، کمزور،
اور حواس باختہ ہو جاتی تھی. وہ اچھی طرح جانتی تھی. اس میں غلطی اس کی بھی نہیں تھی.ساری عمر سرگودھا
شہر میں رسموں رواجوں کی بھاری زنجیروں میں گزارنے کے بعد یک دم لاہور کیا آگی تھی اسے یوں لگنے
لگا جیسے وہ ںیویارک پوھنچ گئی ہو.
مراد علی کی پانچ بیٹیاں تھی، جن میں ثانیہ سب سے بڑی تھی. اس کے لئے وہ بیٹی بھی تھی اور بیٹا بھی.
تعلیم کا انھیں خود بھی شوق رہا تھا مگر باپ کے جلد انتقال کی وجہ سے انہیں بہت جلد اپنی زمینوں کی طرف
متوجہ ہونا پڑا، وہ کوئی بہت بڑے زمیندار نہیں تھے کے سارا انتظام نوکروں کے سر چھوڑ کر خود آرام
سے تعلیم حاصل کرتے رهتے.وہ تو بہت چوتھے زمیندار تھے جنہیں سرے انتظامات خود سنبھالنے اور
کرنے پڑتے تھے. اس لئے بھاری دل سے انہوں نے تعلیم کو خیر باد کہ دیا. ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے.
اور باپ کے مرنے جے بعد تینوں بہنوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑا تھا.سو جب تک وہ اس ذمداری
سے عہدہ براں هوئے ٹیب تک وہ کافی عمر کے ہو چکے تھے. اور انکی مالی حالت بھی پہلی جیسی نہیں
رہی تھی. سو! انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم دلانے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے.
قسمت یہاں بھی ان پرزیادہ مہربان نہیں رہی. بیٹے کی خواھش میں یکے بعد دیگرے پانچ بیٹیاں انکے
آنگن میں آگئیں تو انہوں نے الله کی رضا پر سر تسلیم خم کر دیا.
کوئی بات نہیں! بیٹیاں ہیں تو کیا ہوا؟ میں انہیں ہی پڑھاؤں گا.
وہ کئی بار اپنی بیوی سے کہتے.ایک ایسا خاندان جہاں لڑکیاں سات پردوں میں رہا کرتی تھیں،
وہاں مراد علی کے عزائم سب کو احمقانہ لگے مگر وہ اپنے ارادے پر ڈٹے رہے. پردے میں رکھتے
هوئے انہوں نے بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج بھیجنا شروع کر دیا. پھر یہ سلسلہ یہیں ختم
نہیں ہوا. جب ثانیہ نے گریجویشن کر لی تو مراد علی نے اسے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دلانے
کا تہیہ کر لیا. لاہور میں ثانیہ کی خالہ کا گھر تھا. اس لئے انہیں وہاں رہائش کا کوئی مسلہ نہیں ہوا.
مگر جن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں داخلے شروع ہوے تھے. ان ہی دنوں انہیں ضروری کام کے
سلسلے میں راولپنڈی جانا پڑا. وہ ثانیہ کو اسکی خالہ کے گھر چھوڑ گئے.
ثانیہ کی خالہ شاہدرہ میں ایک چوتھے سی گھر میں رہتی تھی. انکی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا.