میں نے اسے غور سے دیکھا. وہ مجھے بہت معصوم اور اپنی اپنی سی لگی اور پھر اس کے بعد خیالات کا ایک سلسلہ چل نکلا.
خیالات کے اس سلسلے میں وہ میری ہم قدم رہی اور کچھ عرصے کے بعد ایک چاندنی مگر اداسی سے بھری رات میں، میں
نے اپنے گھر کے سونے صحن میں بیٹھ کر خود تو باور کروایا میں معصومہ سے محبت کرنے لگا ہوں.
نہ جانے یہ محبت تھی کہ اسکو جاننے کی جستجو کا نام محبت رکھ دیا تھا جو اسکو دیکھ کر میرے دل میں جاگی تھی. جستجو،
محبت نہیں ہوتی، جستجو تو جان لینے کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور محبت جان لینے کے بعد شروع ہوتی ہے.
میں نے معصومہ کو جان لے کی کوشش شروع کر دی. میں آفس نے جلد از جل اٹھنے کی کوشش کرتا، اور بلا ناغہ لائبریری
جایا کرتا. میری کوشش کرتا کے میری نشست اسکی نشست سے قریب تر ہوتی. کورس کی کتابوں کی بجاتے اب میں اسکا
چہرہ پڑھنے لگتا. میری نوٹ بک خالی رہتی اور میرے دل کے صفحات رنگین ہوتے چلے جاتے. ان پلکوں کا گرنا، اٹھنا،
ان لبوں کا پھیلنا، سمٹنا. اسکے نقوش کی بولی اب مجھے ازبر ہوگئی. میں اسکے انداز کے ہر رنگ کو پہچاننے لگا. لیکن یہ
شاید محض جستجو کا سفر ہی تھا، محبت نہ تھی.
مرد آغاز میں ہی جستجو کو محبت تسلیم کر لیتا ہے اور عورت اس غلطی کو آخر تک بہت وضع داری سے نبھاتی ہے.
میرے دل میں معصومہ کو اپنانے کی خواھش جاگنے لگی. ہر مرد اپنی محبت کو پہلی فرصت میں اپنانا چاہتا ہے اور بسا اوقات
اپنی مصروفیت کو بھی فرصت بنا لیتا ہے. جو وقت مجھے اپنے امتحان کی تیاری کے لئے درکار تھا اسے میں نے معصومہ سے
محبت کرنے میں خرچ کرنا شروع کر دیا اور مرد کی دلچسپی میں اتنی تپش تو ہوتی ہے کے اسے اپنے گالوں پر محسوس کر کے
کوئی بھی لڑکی ہڑ بڑا کر ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ در دل پر کون دستک دیتا ہے؟
معصومہ کو میری لگن کا احساس ہوگیا. اب وہ قدرے الجھن کا شکار نظر آنے لگی. اسکے ہر انداز میں ایک کھنچاؤ سا آنے لگا.
بے فکری سے کتابوں کا مطالعہ کی وہ عادت رخصت ہوگئی. اب وہ بار بار چونک کر میری طرف ددیکھتی، اور مجھے دیکھتا
پا کر فورن کتاب پر جھک جاتی. سفید ڈوپٹے کے ہالے میں چمکتے اسکے کتابی چہرے کی ہر ہر سطر بےچینی اور تذبذب کی
تحریر واضح طور پر پڑھی جانے لگی.
تب ایک روز میں نے فصیلہ کیا کہ مجھے معصومہ سے سب کچھ کہ دینا چاہیے.یہ کہ میں اسے چاہتا ہوں.
"معصومہ! میں تمہیں چاہتا ہوں". ایک روز ریہرسل کے طور پر میں نے دوہرایا.
پھر میں خود ہی سوچنے پر مجبور ہوگیا.
اسکے جواب میں وہ کیا کہے گی؟ اسے کیا کہنا چاہیے؟ اس جملے کا مفہوم کیا ہے؟