معصومہ کو جب میں پہچاننے لگا تو میرے دل میں اسکو جاننے کی خواہش ابھرنے لگی اور مرد کے دل میں
جب کسی عورت کی کھوج ابھرے تو وہ اسے بنا وقت ضاتع کیے بغیر محبت کا نام دے ڈالتے ہیں، ہالانکہ محبت
تو اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے. اگر محبت کرنا اتنا آسان ہوتا تو تو کیا خدا جنّت جیسی قیمتی شے کے بدلے
میں بندوں سے سچی محبت طلب کرتا؟
ہاں تو میں کہ رہا تھا کہ مجھے معصومہ کی کھوج لگی تو میں اسے محبت سمجھنے لگا. وہ کہاں رہتی ہے؟ کیا کرتی
ہے؟ کیسے بولتی ہے؟ اور کیا سوچتی ہے؟ مجھے ان سب باتوں کی کھوج رہنے لگی. میں اسکا منتظر رہنے لگا. ایک
مقررہ وقت پر اسکو دیکھنے کا عادی ہوگیا اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے ان باتوں سے مرد محظ یہ نتیجہ
اخذ کر پاتا ہے کہ اسے اس عورت سے محبت ہوگئی ہے. لہٰذا میں نے خود کو چاندنی راتوں میں اپنے گھر کے سونے
صحن میں بیٹھ کر بار ہا یہ باور کروایا کہ میں معصومہ سے محبت کرنے لگا ہوں. حالانکہ یہ تو محض سفر کا آغاز تھا
اور محبت کی پرکھ تو اختتام سے وابستہ ہے.
میں ان دنوں نیا نیا روزگار سے لگا تھا اور اپنی تنخواہ بڑھوانے کے چکر میں مزید ڈگریوں کے حصول چاہتا تھا. اگلے امتحان
میں شرکت کا پرائیویٹ فارم بھر کر میں پڑھائی کی غرض سے روزانہ اپنے آفس سے واپسی پر قریبی لائبریری میں جاتا تھا.
معصومہ بھی وہیں آیا کرتی تھی. میں نے اسے کبھی بھی آتے هوئے نہیں دیکھا تھا. وہ ہمیشہ پہلے سے وہاں موجود ہوا کرتی تھی.
مخصوص میز تھی جہاں وہ مجھے روزانہ بیٹھی ہوئی ملتی تھی. اس کے پاس کئی رنگوں کی قمیضیں تھیں، مگر دوپٹہ اور
شلوار درف سفید رنگ کے تھے. پیروں میں ہمیشہ وف براؤن رنگ کی سینڈل پہنا کرتی تھی. اس کے حلیے سے یہ انداہ لگانا
مشکل امر نہ تھا کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے. یہ بھی اندازہ لگانا آسان تھا کہ وہ ایک شرمیلی اور لیے
دیے رہنے والی لڑکی تھی. میں نے کبھی اسے کسی سے فالتو، فضول بات کرتے نہ دیکھا تھا. اسکا نام بھی میں نے ایک لڑکی
کہ منہ سے سنا تھا جو ایک مرتبہ اسے لینے کے لئے آئی تھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ میری اس کی جانب توجہ، اس کے
نام ہی نے مبذول کروائی تھی.
"معصومہ". میں زیر لیب دوہرانے پر مجبور ہوا تھا. اور پھر اگلے روز اسے اسی مخصوص میز پر کر، میرے لبوں سے خود بخود
نکلا" معصومہ".