"آپ فکر نہ کریں، میں آپکو سائیڈ روم میں چھوڑ آتی ہوں". وہ رافیہ کو لے گئی اسکو دوا دی، چاۓ پلائی اور سائیڈ روم میں لٹایا. جب وہ سو گئی تو
دروازہ بند کر کے واپس آئی.
میں نے کہا، "لنچ ٹائم ہے، کیا آپ گھر نہیں جایئں گی"؟
کہنے لگی. "آج اپکا کام کرنا بہت ضروری ہے. آپکی بیگم بیمار ہیں. اگر آج اپنا کام ہوگیا تو انکی صحت پر اچھا اثر پڑے گا."
"مگر یہ تو آپکے ساتھ زیادتی ہے".
اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا.
پتا نہیں بعض آنکھیں کیسی ہوتی ہیں. مسکرا رہی ہوتی ہیں. اتنی ان کہی کہانیاں تھی. اسکی آنکھوں میں کہ میں اپنا راستہ بھول گیا.
وہ ایک گھنٹہ جو میں نے وہاں گزارہ، وہ میری سری زندگی پر چھا گیا.
اسکی عمر لگ بھگ چالیس برس تھی. دس سال سے سفارت خانے میں ملازم تھی. دس سال پہلے اسکا شوہر ایک حادثے میں چل بسا. اسکا کوئی بچہ
نہیں تھا. دو کمروں کا ایک خوبصورت فلیٹ تھا جس میں وہ رہتی تھی. فالتو وقت میں پینٹنگ کرتی تھی. جب کچھ پیسے جمع ہو جاتے تو دنیا کی
سیر کو نکل جاتی.
اس کی باتوں میں وہ سب کچھ تھا جو اس نے دنیا میں دریافت کیا تھا. اسکے کام کرنے کے انداز میں بہت لگن تھی. اور وہ زندگی
کو پوری طرح سمجھ کر اس کے ساتھ نباہ کر رہی تھی. اسی لئے وہ ہر ایک کی بات کو سنتی اور بڑے اطمینان بخش انداز میں جواب دیتی.
ایسے لگتا اس نے گیان کا کوئی بھید پا لیا ہو اور عرفان کی کسی منزل میں ہو.
اسکا رویہ ام ملازمت پیشہ عورتوں جیسا نہیں تھا، رعونت سے بھرا ہوا ، کھردرا یا بناوٹی.
ملازمت پیشہ عورت دفتر میں خواہ کتنی بھی خندہ پیشانی سے مسکراتی رہے، کھردری ہو جاتی ہے. خوبصورت لباس اور سلیقے سے کے هوئے
میک اپ کے باوجود اس کے اندر نرمی ختم ہو جاتی ہے. اگر وہ عورت شادی شدہ ہو تو کئی بار اکسے لہجے کی تلخی چھلکنے لگتی ہے. اسکی نہ
آسودگی کا اظہر کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے.
لیکن وہ...... اپنی زندگی کی داستان اس طرح سنا رہی تھی جیسے پرائمری اسکول میں اپنی کامیابیوں کا قصہ سنا رہی ہو.
اس ایک گھنٹے کی ملاقات میں اس سے سب کچھ پوچھا میں نے، مگر دو باتیں جان بوجھ کر نہیں پوچھیں. ایک تو اس کا نام نی پوچھا کیوں کہ وہ تختی
پر درج تھا. "مسز آفگن" اگر اسکا اصلی نام پوچھ لیتا تو مجھے معلوم ہے. اسکی شخصیت کی طرح خوبصورت ہوتا اور ہمیشہ کے لئے میرے بھیجے میں
کسی پھانس کی طرح اٹک جاتا. پھر یہ کہ میں روح کو کوئی نام نہیں دینا چاہتا تھا. اور دوسرا یہ کہ میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کے دوبارہ شادی
کیوں نہیں کی؟