"میں سارے محلے کی وکالت کرنے نہیں آئی".
اس نے اپنے دل کا غصّہ ہونٹوں میں دبایا.
"اچھا ! تم اپنے دل کی وکالت کرنے آئی ہو"؟
"اونہہ...." وہ واپس مڑی.
"تو تمہارا مشوره ہے کہ میں واپس اپنے شہر میں ٹرانسفر کروا لوں"؟
میں اسے روکنا چاہتا تھا، ابھی ابھی تو اسنے مجھے جگایا تھا اور جاگنے کے بعد میں خود کو جگ جانے کا یقین دلانا چاہتا تھا.
"مجھے سے کیوں پوچتے ہیں، اگر آپ کا دل وہاں لگ گیا ہے تو رہنے دیں". اسنے ترچھی نظروں سے دیکھا اور کھلکھلا کر ہنس دی. بڑی ظالم
شے ہوتی ہے جوان لڑکی.
قدرت نے اسکے ہاتھ میں اندیکھا نشتر دے رکھا ہوتا ہے، جب چاہے مرد کے سوے هوئے احساس میں چبھو دے.
"میں وہاں دل لگانے تو نہیں گیا تھا."
"اور کیا کرنے گئے تھے"؟
"نوکری کرنے گیا تھا."
"اچھا تو پھر نوکری کیجیے"
"تمہارا دل جو نہیں لگتا میرے بغیر". میں نے بھی اب چوٹ کھاتے هوئے انداز میں کہا.
اس نے سر جھٹک کر میری طرف دیکھا اور بھگ گئی.
یہ ہوتی ہے عورت.
مرد کے پرسکون سمندر میں ایک کنکر پھینک کر ہلچل مچا دیتی ہے.اسکے دل کا بوجھ تو ہلکا ہوگیا ہوگا پر میرا دل بوجھل ہوگیا.
کبھی کبھی کا ٹکراؤ..... ننھے ننھے فقرے.... اور غلافوں میں لپٹی ہوئی عام سی لڑکی..... میری زندگی کی آرزو بن گئی.
رافیہ اچھی بیوی ثابت ہوئی. زندگی کے سفر میں ہم ایک ساتھ چل پڑے. میں نے بھے محنت کی جس طرح ہر متواسط طبقے کا نوجوان اپنے
خاندان کو اعلی مقام دلانے کے لئے کرتا ہے. ہمارے تین بچے ہیں. بڑا بیٹا امریکا میں رہتا ہے، دونوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے. پچھلے مہینے
چوٹی بیٹی کی شادی کی اور اب ہم دونوں میاں بیوی امریکا میں رہنے کے ارادے سے جا رہے ہیں. میرا بیٹا ڈاکٹر ہے وہاں اچھی زندگی بسر
کر رہا ہے. اسنے میرے لئے بھی ایک جوب کا بندوبست کر دیا ہے. اسکا خیال ہے کہ باقی کی زندگی مجھے اور رافیہ کو وہیں اپنی مرضی سے
بسر کرنی چاہیے. رافیہ بھی یہی چاہتی تھی اسی لئے ہم سفر کے مراحل طے کرتے اسلام آباد آتے ہوے تھے.
................................................................