"آپکو پتا ہے ماریہ آپ پر پنک کلر کتنا سوٹ کرتا ہے"؟
شام کو جب وہ سب لوگ لون میں چاۓ پی رہے تھے ٹیب شاہ بخت سے اچانک اسکو نظروں کے حصار میں لیتے هوئے بےساختہ کہا اور
ماریہ سب کے سامنے خفیف سی ہوگئی. جب سے آذر نے اسکے ساتھ یہ کیا تھا وہ بہت محتاط زندگی گزار نے کی قائل ہوگئی تھی.
"تم بھی نوری کی طرح مجھے بجو کہا کرو شاہو، بڑی ہوں میں تم سے".
اس رسانیت سے کہنے پر وہ کھی کھی کرنے لگا.
"چاچو سنی آپ نے بات بجو کہا کروں. دیکھنے میں صاف چھوٹی لگتی ہیں مجھ سے".
"لیکن میں تم سے چوٹی نہیں ہوں، سمجھے".
اس نے جتاتے ہوے کہا اور جھٹکے سے وہاں سے اٹھ گئی. سب بے حد خاموش بیٹھے تھے.
آذر شاہ بخت کا بڑا بھائی تھا. ماریہ ایف ایس سی میں تھی جب آذر کی خواھش پر ماریہ کو آذر سے منسوب کر دیا گیا. دو سال بعد جب
وہ ہائر اسٹڈیز کے لیے ملک سے باہر جا رہا تھا ٹیب سب کی باہم رضا مندی کے ساتھ دونوں کا نکاح کر دیا.
طے یہ پایا کہ اگر آذر کا وہیں پر جاب کا ارادہ ہوا تو بعد میں ماریہ کو بھی وہیں بھیج دیں گے. مگر وہاں جاکر آذر کی پسند اور خیالات
بدل گئے. اس نے نہ صرف وہاں شادی کر لی بلکے ماریہ کو طلاق کی صورت میں آزادی کا پروانہ بھیج دیا. وہ ماریہ کو خام خواہ باندھ
کر رکھنا نہیں چاہتا تھا. اس حادثے نے ماریہ کو اتنی بری طرح توڑ پھوڑ ڈالا کہ وہ بڑے عرصے تک سمبھل نہ پائی.
پاپا اور تاؤ کے سمجھانے پر اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور کالج میں لیکچرر بھی ہوگئی مگر دوبارہ شادی کے بندھن میں بندھنے کو تیار
نہ تھی. بہت سارے رشتے آئے مگر پاپا چونکہ اس سے زبردستی نہیں کرنا چاھتے تھے جب ہی کسی کو بھی ہاں نہیں کہی گئی.
پچھلے سال نوریہ کی بھی نسبت طے ہوگئی تھی. اور عنقریب شادی تھی مگر ماریہ ابھی بھی آمادہ نہیں تھی.
"ماریہ آپکو پتا ہے مجھے آپکے ہاتھ کے کھانے کتنے پسند ہیں مگر آپ نے ابھی تک میرے لیے کچھ بھی نہیں بنایا".
لان میں جھولے پر بیٹھی وہ شام کے ڈھلتے سایوں کے پرندوں کو آشیانوں کی طرف لوٹتے هوئے دیکھ رہی تھی جب شاہ بخت اسکے مقابل
بیٹھا شاکی انداز میں بولا.
"سوری شاہو! مجھے خیال ہی نہیں آیا. بتاؤ کیا کھانا ہے میں ابھی بناتی ہوں".
"گڈ! یہ ہی نہ بات اب آپ تیار رہیں کل ہم سب فارم ہاؤس جا رہے ہیں پکنک کے لیے". وہ اسکے ساتھ ہی کچن میں چلا آیا تھا.
"آپ کو پتا ہے ماریہ، آپکی مسکراہٹ کتنی حسین ہے اور آپ نے اتنے عرصے تک اپنے پیاروں کو اس سے محروم رکھا. آپ بتائیں آپکے
چہرے پر ووہی مسکراہٹ سجانے کے لئے مجھے کیا کرنا پڑے گا"؟ وہ ایک دم سنجیدگی سے بولا. ماریہ کے چہرے پر اضطراب بکھر گیا.
"تم کیا کر سکتے ہو بھلا"؟
"ضروری تو نہیں ہے ماریہ، کہ ہر زخم اسی مرہم سے بھرے جو ہم اپنے لیے مؤثر سمجھتے ہوں".
"کیا مطلب"؟ ماریہ بہت زور سے چونکی.