وہ آنکھیں کسی آنکھیں ہیں جنہیں تم اب چاہا کرتے ہو؟ تم کہتے تھے... میری آنکھیں کتنی اچھی کتنی سچی ہیں.
اس حسن اور سچائی کے سوا دنیا میں کوئی چیز نہیں.
کیا اب ان آنکھوں کو دیکھ کر بھی تم فیض کا مصرہ پڑھتے ہو؟
کبھی یہ بھی ہوا، کسی لمحے تم سے روٹھ کر یہ آنکھیں رو دیں.
اور تم نے اپنے ہاتھ سے ان آنکھوں کو خشک کیا.. ور جھک کر چوم لیا. (کیا انکو بھی)
"وہ ایک بار پھر خود سے بکھری ہوئی تھی. ایک بار پھر اس پر آذر کی یادوں کا حملہ تھا. وہ بےبسی سے سسک اٹھی. دس سال
کم تو نہیں ہوتے کسی کو بھلانے کے لئے. وہ بھی کسی بے وفا کو بھلانے کے لیے مگر پتا نہیں کیوں وہ اس معاملے میں اتنی بےبس
کیوں تھی. یادیں تھیں کے آکٹوپس جو جکڑ لیتیں تھیں اور خون چوستی تھیں. وہ آنسو بہا رہیں تھیں جب دروازہ کھلا تو نورسیہ نے اندر
جھانکا.
"بجو! اتنا اندھیرا، اف سو تو نہیں رہیں تھیں؟ بھول گئیں آج شاہ بخت نے آنا تھا اور وہ پہنچ گیا ہے. آئیں نا ملیں اس سے، سچی اتنا ہینڈ سم
لگ رہا ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا. کہ یہ ووہی سوکھا سڑا سا شاہ بخت ہے. جسے ہم سب شاہو کہا کرتے تھے.
لائٹ آن کر کے وہ تیز تیز بولتی اس تک آئی ٹیب تک ماریہ آنسو پونچھ کر خود کو نارمل کر چکی تھی. اور جب وہ بغیر کسی پس و پیش کے
نورسیہ کے ساتھ لائونج میں آئی تو شاہ بخت کو سب گھر والوں کے درمیان ہنستے مسکراتے پایا.
"اسلام و علیکم میم! ہائو آر یو"؟
وہ اسکے سامنے جھکتے هوئے بولا تو ماریہ مسکرا دی.
"ابھی تک نہیں بدلے، بلکل ویسے ہی ہو".
"آپ تو بدل گئیں". شاہ بخت نے اسکے ملجگے سے حلیے کو دیکھتے هوئے کہا.
"ہاں! بوڑھی ہوگئی ہوں نہ وہ کھوکھلی سی ہنسی ہسی. اس بات پر دھیان کے بغیر کہ اسکی بے رنگ ہنسی اور تکلیف وہ جملے نے
ماما، پاپا کے ساتھ تاؤ جی کے چہرے پر بھی تاریک سائے لہرا گئے.
"خام خواہ بوڑھی ہوگئی ہو، بوڑھے ہو تمہارے دشمن. ارے آپ تو بس بوڑھی روح ہوگئی ہیں. اسے بھی ہم جوان کر لیں گے چاچو؟".
وہ اپنی بات کی تائید چاھتے هوئے پاپا کی طرف دیکھتے هوئے بولا. اور وہ محظ اداسی سے مسکرا دے.
"آپکو پتا ہے میں آپکے لئے پنک کارڈیگن لایا ہوں. ابھی پہن کر دکھائیں مجھے".
وہ بیگ کھولتے هوئے بولا تو ماریہ گھبرا گئی.
"نہیں، نہیں ابھی نہیں بعد میں پہن لوں گی".
اسکے ہاتھ سے پیکٹ لٹے ہوے وہ جلدی سے بولی تو شاہ بخت کا چہرہ لٹک گیا.
"As you wish". اس نے نرمی سے کہا تھا.