"یہ کیا؟" وہ دروازے میں ہی بت بن گئے.
سارے کمرے کی دیواروں پر کترینہ کیف، کرشمہ کپور اور نہ جانے کون کون سی انڈین بلاؤں کی قد آدم تصوریں
لگیں تھیں. انکے نرم گداز کی جگہ تین سنگل بیڈ قطر میں لگے تھے. ایک طرف پڑی ڈریسنگ ٹیبل پر چوڑیاں، جیولری
اور میک اپ کا ڈھیر پڑا تھا.
"شاید منگنی کی تقریب کی وجہ سے یہ کمرہ مہمان لڑکیوں کو دے دیا گیا ہو". وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھے کہ الماری سے
اپنا کوئی سوٹ نکالیں تو ساری الماری میں گویا رنگ برنگ کپڑوں کی لائن لگی تھی اور رنگ برنگ نسوانی پہناوے تھے.
ایک میں خوبصورت جوتوں کے ڈھیر اور دوسرے میں بہت سا نسوانی سامان.
انہوں نے زور سے الماری بند کی.
"تو میرے کپڑے کہاں گئے."؟ وہ گم سم کھڑے رہ گئے.
"اوپر کے چوبارے میں رکھوایا دیا ہے ہم نے تمہارا سارا سامان بھیا! تم تو سال کے ڈیڑھ مہینے یہاں ٹکتے ہو. ہمارے بچے
اب بڑے ہوگئے ہیں، سب ہی کو الگ کمروں کی ضرورت ہے. تینوں بچیوں کو یہ کمرہ دے دیا ہے. اب جوان ہوتی بچیوں کو
ہم چوبارے میں نہیں ٹانگ سکتے تھے نہ"؟
بڑی بھابھی کچھ ہی دیر میں اسکو تلاشتی پہنچیں تو سارا قصہ کھول دیا.
"مگر چوبارے کے ساتھ تو کوئی باتھ روم بھی نہیں ہے". وہ منمناۓ.
"یوں تو باہر کا غسل کھانا ایک دم چالو حالت میں ہے، تھوڑی صفائی ابھی کروا دیتی ہوں. پھر تم جوان جہاں بھی ہو. چار سیڑھیاں
اترو تو نیچے واش روم استعمال کرلو. انہوں نے مسلۂ چٹکیوں میں حل کردیا.
اور چوبارے میں انکا سامان ایسی بے سرو سامانی کے عالم میں پڑا تھا کہ انکا جی چاہا کہ ابھی یہاں سے بھاگ جایئں.
لیکن وہ ابھی تو نگر نگر کی مسافت سے بھاگ کر تو گھر آے تھے کہ اب چھے آٹھ ماہ گھر سے نہیں نکلنا. تو اب کہاں جائیں.
بیڈ کاٹھ کباڑ ہٹا کر تھوڑی بیٹھنے کی جگہ بنائی اور سوچنے لگا یہ سب کیسے ہوگیا. گھر میں تو انکا بھی ساتھ برابر حصہ تھا،
پھر کیوں انکو ایسے کاٹ کے الگ کر دیا گیا.اس لیے کہ انہوں نے شادی نہیں کی؟
مگر اس میں انکا کیا قصور؟
انیس سال کے تھے جب قومی ہاکی ٹیم میں سلیکٹ هوئے. چار ٹورنامنٹ کھیلے اور پھر جہاں نوردی کی ایسی چاٹ لگی کہ ہر سال
نئے ملک گھومنے کا قصد کیے ابّا مرحوم کی چھوڑی اپنے حصّے کی جائیداد میں سے موٹی رقم لیتے اور چل پڑتے. تینوں بھائیوں
کے نام دو دو دکانیں تھیں اور ابّا کی زرعی اراضی بیچ کر تینوں کے حصّے میں پندرہ، پندرہ لاکھ آتے، وہ دونوں تو جاب بھی کرتے
تھے. ارسلان نے تو چند ماہ نوکری کی اور پھر اس مشقت سے باہر نکلے. اب تو پیروں میں ایسے پہیے لگے تھے کہ بمشکل دو
تین ماہ گھر میں ٹکتے اور پھر سیاحت کو نکل پڑے. ارسلان میاں سے وہ سیلانی بھائی بن گئے اور غائبانہ ابن بطوطہ!
مگر سر دست تو اس کمرے کی حالت زار تھی. نہ اماں مرحومہ زندہ تھیں، نہ کوئی بہن اسکے پاس جا کر رونا روتی. وہیں جگہ بنا
کر جو لیٹے تو بے سدھ ہو گئے.
...................................................................