مدثر چچا کی بیٹی، جسے نہ کبھی بہن سمجھا نہ کزن نہ دوست.
یہ تو بس دونوں گھروں کی منیا تھی اور آج دلہن.
انکے دور دیسوں میں گھوڑے دوڑاتی، سوکھی گھاس چرتی عقل بلآخر واپس آہی گئی تھی. وہ سفر کی سری تھکن بھول کر کھل کر مسکراتے.
ڈھولک کے گیت بھی یکایک انکی سمجھ میں آنے لگی اور لوگوں کے ٹھٹھے بھی.
"اپنے توقیر کی دلہن بنا رہی ہوں میں منیا کو". زیتون خالہ نے بہت فخر سے بتایا.
"پھر تو بہت مبارک ہو خالہ آپکو". ارسلان میاں نے خام خواہ ہنس کر کہا.
"توقیر آگیا جرمنی سے؟"ارسلان کو صد شکر بروقت یاد آگیا کہ زیتون کھلا کا اکلوتا فرزند جرمنی میں ہوتا ہے.
"آج تو منگنی ہے. چار ماہ بعد توقیر کے جرمنی سے آتے ہی شادی ہے. اب تم ان چار ماہ میں کہیں بوریا بسٹر باندہ
کر نہ چل پڑنا بلکہ میری مانو تو اس بار تم بھی کسی کھونتے سے بندہ جاؤ. یہ نگر نگر بنجاروں کی طرح پھرنا چھوڑو.
سب بہن بھائی ٹھکانے لگے، اب تو انکے بچے تمہارے کندھوں کو آنے لگے ہیں." زیتون خالہ نے ٹھیک ٹھاک لیکچر دے دیا.
"جی خالہ"! وہ حسب معمول سر ہلا کر بولے.
"خالہ!" رسم کریں کافی وقت ہو رہا ہے، پھر لائٹ چلی جاتے گی. جنریٹر ٹھیک سے کام نہیں کر رہا".
دونوں بھائی بھابھیاں ارسلان کے پاس آکر بیٹھ گئے اور بھتیجے بھتیجیاں پر شوق نگاہوں سے انہیں دیکھتے اردگرد منڈلا تو رہے تھے اور
حسب عادت وہ اس بار پھر سب کے فردا فردا نام بھول چکے تھے اور اب خود سے بلانے میں پہل کرنے کے بجاتے منتظر تھے کہ وہ
ایک دوسرے کو پکاریں تو انکی یاد داشت کو تازگی کا چھینٹا لگے.
خالہ نے خوب ونچی سی آواز میں بسم الله پڑھ کر منیا کو خوبصورت سی سونے کی انگوٹھی پہنادی. سب نے زور و شور سے مبارک دی.
مگر یہ کیا..... انگوٹھی تو پہناتے ہی دھپ سے انگلی سے پھسل کر نیچے گر گئی.
"ہاے الله ! یہ کیا بدشگونی ہوئی، انگوٹھی کیوں گر گئی انگلی سے. خالہ ! ناپ ٹھیک لیا تھا نہ؟" کوئی بولی.
"اتے میں نے تو بلکل ٹھیک ناپ دے کر آئی تھی. اس کمینے سنار کو جانے کیا ہوا". کسی نے جلدی سے انگوٹھی اٹھا کر دی. خالہ نے جھٹ
سے پھر پہنا دی اور ساتھ ہی منیا کی مٹھی بھی بند کر دی احتیاط ماتقدم کے طور پر.
سب مبارک سلامت کے شور میں لگی تھے اور ارسلان کو نہانے کی طلب ہو رہی تھی. سو چپکے سے انکے بیچ سے اٹھ کر اپنے کمرے
کی طرف بڑھے.
.......................................................