" تائ! کریلے پکاۓ ہیں اج اپ نے۔" حمدان کی اواز پر پلوشہ نے چونک کر دیکھا' وہ وہیں کھڑا پانی پی رہا تھا اور اب کریلوں کے بارے میں سن کربرے برے منہ بنا رہا تھا۔
" ارے!" رضوانہ بیگم پیار سے بولیں۔ " میں نے اپنے بیٹے کے لیے الگ سے گوشت نکال لیا تھا۔"
" اوہ ! میری گریٹ تائ۔ ائ لو یو۔" وہ ہنستا مسکراتا کچن سے نکل گیا تھا۔
" مان جاؤ نا وشی' دیکھو کتنا پیارا لڑکا ہے۔" رضوانہ بیگم نے پلوشہ سے کہا۔
" مما میں ساری زندگی دو دو سالن نہیں پکا سکتی۔" اس نے پلیٹیں نکالنا شروع کیں۔
" جب پیار ھو گا تو دو دو سالن بھی پک جائیں گےاور کریلے گوشت میں سے گوشت الگ کرنا تو بہت اسان ہے نا بیٹا۔" رضوانہ بیگم ہنسیں۔
" پیار ہی تو نہیں ہے مما!" وہ کچن سے باہر نکل گئ۔
" وہ بھی ہو جاۓ گا۔" حمدان باہر ہی کھڑا تھا ۔" تم ایک بار ہاں تو کرو۔"
" حمدان تم ھاتھ دھو کرمیرے پیچھے کیوں پڑ گۓ ہو۔ " وہ جھنجھلائ۔
" تم صفائ پسند ہو ناں اس لیے۔" اس نے دانت نکالے۔
" افوہ۔" وہ پاؤں پٹختی روم کی طرف بڑھ گئ۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اب روزمرہ کے معمولات میں عبادات کے اوقات بڑھ گۓ تھے۔
اسٹڈی کے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوۓ حمدان نے ٹھٹک کر دیکھا۔ پلوشہ جاۓ نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی ۔ سفید ڈوپٹے کے ہالے میں اس کا دودھیا چہرہ دمک رہا تھا وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔
" تمہاری ساری دعائیں قبول ہو چکی ہیں پلوشہ!" وہ دروازے سے ٹیک لگاۓ وہیں کھڑا ہو گیا تھا۔
" کیا مطلب۔" پلوشہ نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسے دیکھا۔
" مطلب یہ کہ ایک بہت اچھا ' پیارا اور ہینڈسم انسان تمہاری قسمت میں لکھا جا چکا ہے۔ "
" تم کتنے خود پسند ہو حمدان" پلوشہ نے طنز کیا۔
" یعنی۔" وہ ایک لمحے کے لیے رک کر شرارت سے مسکرایا۔ " تم یہ مانتی ہو کہ وہ بہت اچھا پیارا اور ھینڈسم انسان میں ہی ہوں۔"
" حمدان! میری ابھی تراویح رہتی ہے۔" وہ تنک کر بولی۔" اور تم بھی کچھ اس رمضان میں عبادت کر لو تو شاید تمہاری قسمت بھی سنور جاۓ۔"
" مشکل ہے ۔ میرے نصیب میں تو ایک جھگڑالو ' نک چڑھی لڑکی لکھی جا چکی ہے۔ بس اس کے ساتھ رہ کر صبر شکر کروں گا اور سیدھا جنت میں جاؤں گا۔" اس نے افسوس سے سر ہلایا تھا۔
" میں مانوں گی تب ناں! " وہ حسب معمول بپھر گئ تھی۔ " نہیں کرنی مجھے تم سے شادی ۔ جاؤ یہاں سے ۔" اس نے اٹھ کر دوبارہ نیت باندھنا چاہی۔ حمدان کا قہقہہ بے ساختہ تھا ' بڑی مشکل سے ہنسی روک کر بولا۔
" یعنی تم یہ مانتی ہو کہ وہ جھگڑالو اور نک چڑھی لڑکی تم ہو۔ " نماز پڑھتے ہوۓ بھی پلوشہ کے ماتھے کے بل واضح تھے۔