SIZE
5 / 8

" اؤی میں مر گئ۔ ابو جی آپ اٹھ گۓ' میں چاۓ لاتی ہوں۔" اور تھوڑی دیر بعد وہ چاۓ کا کپ لیے حاضر ہوتی اور سسر جی اسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے ۔ حتی کہ میری ساس اٹھ جاتیں۔ میں بھی اٹھ جاتی۔ بچے بھی اسکول چلے جاتے ۔ عاشر اور رمیز افس چلے جاتے' لیکن سسر جی کا " فلک نامہ " نہ ختم ہوتا۔

سسر جی کے معمول میں شامل تھا کہ گھر کے ہر فرد کے سامنے فلک کے صبح اٹھنے کی اور سسر جی کو چاۓ پیش کرنے کی داستان روزانہ تفصیل کے ساتھ بیان کرنا اور پانچ سال بعد مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی تھی۔

اگلے دن جب ہم تمام گھر والے شام کو کھانے کے بعد ایک ساتھ بیٹھے تھے ۔ سسر جی جانے کیا سوجھی ' کہنے لگے۔ " چلو آج مشاعرہ ہو جاۓ۔"

" ارے واہ' زبردست آؑییڈیا ابو جی۔ ایسی شاعری کروں گی کہ لوگ واہ واہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بڑے بڑے شاعر اپنے دیوان پھاڑ دیں گےاور مشاعرے میں موجود حضرات میری شاعری سن کر اپنے سر پھوڑ لیں گے۔ اؤی میں مر گئ۔ فلک نے ہنستے ہوۓ کہاتو میں نے سوچا کہ اس کی اواز ہمارے کان کے پردے پھاڑتی ہے اور اب اس کی شاعری ہمارے سر پھاڑے گی۔

" اتنی پر تشدد شاعرہ ۔ اپ نے تو سب کچھ برباد کر ڈالنا ہے۔" عاشر مسکراۓ۔

"بس جی "آئ" کو کون ٹال سکتا ہے' اؤی میں مر گئ۔"

شعرسنائیں' شعر سنانے کی ہمت ہے۔"رمیز شوخی سے بولا۔

" میں تو شعر کہنے کی جرات رکھتی ہوں' مگر کیا آپ لوگ میری شاعری برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے اپنی شاعری کمزور دل والوں کو سنانے سے پرہیز بتایا ہے۔ اؤی میں مر گئ۔" فلک بالکل شاعرہ بنی بیٹھی تھی اس وقت۔

"میں تو مشاعرے میں انڈے اور ٹماٹر لاؤں گی۔" میں نے بظاہر مزاق کرتے ہوۓ در حقیقت جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے چاہے۔

" مشاعرے میں شریک تمام حضرات بغور سن لیں کہ اؤی میں مرگئ۔ مشاعرے کو تخریبی کاروائیوں سے محفوظ رکھا جاۓ۔ کیونکہ ما بدولت مشاعرے میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔"

" یہ ما بدولت کون ہیں۔"میں نے دھیرے سے عاشر کے کان میں سوال پوچھا۔ جس کا جواب دینا عاشر نے ضروری نہ سمجھا' وہ ہنستے ہوۓفلک کی تقریر سن رہے تھے جو کہ مسلسل بولے چلے جا رہی تھی ۔

" اور اگر ایک بھی سڑا ہوا ٹماٹر میرے شعر کو زور سے لگ گیا تو میرا شعر خراب ہو جاۓ گا۔ اؤی میں مر گئ۔ ہاں اگرانڈے گندے نہ ہوں تو انڈے لانے کی اجازت ہے۔ میں انڈے کیچ کرنے کی کوشش کروں گی۔ کیونکہ انڈے بہت مہنگے ہو چکے ہیں۔ اؤی میں مر گئ۔"

" چلو پھر طرحی مشاعرہ کرتے ہیں فلک بیٹا۔" سلیم احمد کا شعر ہے۔

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے

اس طرح ملیے کہ جزو زندگی بن جائیے

سسر جی نے طرحی مشاعرے کے لیے شعر سنایا۔

"ارے واہ اس شعر پر تو میں فٹا فٹ شاعری کر سکتی ہوں اؤی میں مر گئ۔ عرض کیا ہے۔ فلک اس وقت پکی شاعرہ بنی بیٹھی تھی۔

" واہ۔۔۔۔واہ۔۔۔۔واہ۔۔۔واہ۔" رمیز نے فلک کے شاعری کرنے سے پہلے ہی واہ 'واہ کر کے " جورو کے غلام ہونے کا ثبوت دیا۔