میری دیورانی کا نام " اوؑی میں مر گئ" تھا۔ نہیں نہیں ےہ تو اس کا تکیہ کلام تھا ۔ بھلا کسی کا نام " اوؑی میں مر گئ" ھو سکتا ہے گو کہ جتنی بار میری دیورانی کے منہ سے یہ جملہ ادا ہوتا تھااس حساب سے تو اس کا نام' کام' عمر پیشہ سب اوؑی میں مرگئ ہی ہونا چاھیے تھا۔ مگر میری دیورانی کا نام فلک تھا ۔
فلک کے ھونٹوں سے نکلے ہر جملے کے ساتھ " اوؑی میں مرگئ" بونس کے طور پر موجود ہوتا تھا ۔ یعنی ہر جملے کے ساتھ" اؤی میں مر گئ " فری فری فری۔ کبھی کبھی تو حاطم طائ کی سخاوت کو مات دیتے ھوۓ ایک جملے کے ساتھ دو بار بھی " اوئ میں مر گئ" مفت دیا جاتا تھا ۔ بہرحال فلک کا یہ جملہ محض سیاسی بیان تھا اس کا کیونکہ وہ صرف کہنا پسند تھی کہ میں مر گئ مگر مرنا ہرگز پسند نہیں کرتی تھی۔
مرنا تو شاید کسی کی ترجیحات مین شامل نہیں ہوتا مگر اس طرح کا جھوٹا بیان ایک دن میں اتنی زیادہ بار تو ھمارے سیاست دان نہیں دیتے جتنی بار یہ جملہ میری دیورانی فلک دہراتی تھی۔
میری شادی کے بعد دو سال کا عرصہ تو خاصے سکون و ارام سے گزرا کہ اس گھر کی میں واحد اور چہیتی بہو تھی ۔ میرے شوہر کے علاوہ ساس سسر اور دیور بھی تھے۔ سب بہت اچھے تھے۔۔ میرے سسر جی کو زیادہ تعریفیں کرنے کی عادت تھی ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ میرے سسر جی سب کے سامنے میری تعریفیں کرنے اور دعا دینے کی عادت تھی۔ سسر جی کی یہ عادت میرے لیے باعث مسرت تھی۔
میری شادی کے دو سال بعد جب فلک میری دیورانی بن کر ائ تو میں بے حد خوش تھی ۔ وجہ ۔۔۔۔وجہ۔۔۔۔نمبر ایک کے گھر کے کاموں میں ھاتھ بٹانے والی آ گئ اور وجہ نمبر دو کہ فلک سے میرے نمبر کچھ زیادہ ہی تھے۔ میں نے کسی امتحان گاہ میں حل کے لیے پرچے کی بات نہیں کر رہی۔ دراصل زندگی بھی تو امتحان گاہ ہی ہے نا۔ مجھے ہمیشہ پہلی پوزیشن پر رہنا پسند رہا ہے۔ فلک کے انے کے بعد دل ہی دل میں اپنا اور فلک کا موازنہ کیا اور اپنے آپ کو فلک سے قدرے بہتر پا کر خوش ھو گئ۔ خوب صورتی بہت تھی میرے پاس اور ذہانت بھی۔۔۔۔ خوب صورت تو فلک بھی بہت تھی' مگر میری سرخ و سفید رنگت کے سامنے اس کا گندمی رنگ کچھ کچھ سانولا محسوس ھونے لگتااور اس پر مستزاد فلک کی بے تحاشا اور مسلسل بولنے کی عادت ۔ اس کی اواز کان کے پردے پھاڑنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جب فلک بولنے پر اتی تو شاید چپ ھو جانا بھول جاتی تھی۔