SIZE
4 / 6

" اری بھلیے لوکے ۔ کیا تیاری کروانی ھے میں نے انھیں ۔ بس جو ان کی بیٹی کے نصیب کا ھو گا ۔ وہ اسے مل جاۓ گا ۔ چوھدری صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔

" اکڑ تو اتنی ھے ان میں ۔ ان جیسے لوگوں کی کیا مدد کرتی ۔ "

" اکڑ ۔۔۔۔۔ مگرکس بات کی اکڑ۔ میں نے تو ھمیشہ ان میں نرمی و حلاوت دیکھی ھے۔"

"ہاں ہاں ۔۔۔ آپ کو تو نرمی و حلاوت ھی دکھانی ھے انھوں نے ۔۔۔۔ مگر اتنی عقل تع ہونی چاہیے کہ جب اگلا بندا تمہاری بیٹی کے لیے اتنا کر رہا ھے تو تم بھی آ کر ادھر چکر لگا جاؤ۔ میں اکیلی ہلکان ھوتی پھرتی ہوں۔ یہ نہیں کہ کبھی آ کر کام کاج میں ہاتھ ہی بٹا دو ۔"

" حد کرتی ہو تم بھی ۔ جتنا تم کام کاج میں ہلکان ہوتی ھو' میں سب جانتا ہوں۔ کبھی ہل کر پانی تک تو پیا تم نے۔ اپنے ذاتی کام تک کام والیوں سے کرواتی ہو۔ اور وہ آ کر تمہارے کام کیوں کریں ۔ وہ کیا ملازمہ ہیں تمہاری ۔ اللہ کی راہ میں دیتے وقت تم اپنے کام کروانے کا کیوں سوچتی ہو۔" چوھدری صاحب گرم ہو گۓ۔ ان کے سارے موڈ کا ستیاناس ھو گیا تھا۔ اتنی گھٹیا بات سن کر۔۔۔۔

" اور ایک کان کھول کر سن لو۔ اس جمعے کو افشاں کے سسرال والے آ رہے ہیں۔ دن مقرر کرنے سے پہلے وہ ایک چکر لگا کر بچی کا ناپ وغیرہ لینا چاہ رہے ہیں اور سارا انتظام ہماری طرف ہی ہو گا۔ کیونکہ ادھر کا لاؤنج بھی کھلا ھے اور ڈراؑںنگ روم بھی ۔ انتظام سارا میں خود دیکھ لوں گا۔ بس تم زرہ اپنا منہ بند رکھنا ۔ کچھ بد مزگی نہ ہو۔ " چوھدری صاحب کڑے لہجے میں کہتے ہوۓ مردان خانے چلے گۓ۔

صغری بیگم نے سارا غصہ اپنی بچیوں کے سامنے جل کڑھ کر نکالا ۔

" امی! اپ اپنی عادتوں کو بدلیں۔ اللہ نے بھی صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ " ستارہ نے جو میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی ' ماں کو سمجھایا۔

" بس کرو تم ۔ ایک میں ہی بے وقوف ہوں۔ باقی تم سارے تو بہت عقل مند ہو جیسے ۔"صغری بیگم جلتی بھنتی کمرے سے باہرنکلیں۔

مہمان آۓ۔ خاصے پڑھے لکھے' سلجھے ہوۓلوگ تھے ۔ لڑکے کے والد ' والدہ ' دو بہنیں اور تائٰ امی کو ملا کر کل دس افراد تھے ۔ چوھدری صاحب نے کھانا باہر سے ارڈر کیا تھا۔ مہمانوں کی اچھی خاصی خاطر تواضع کی گئی۔ مگر نجانے کیا ہوا کہ انہوں نے جاتے ہوۓناپ لینے کا کوئی تذکرہ نہ کیا اور خاموشی سے ناپ لیے بغیرہی رخصت ہو گۓ۔ اگلے دن ہی ان کی طرف سے معزرت کر لی گئی۔

صا ؑلمہ بی کا تو رو رو کر برا حال تھا۔ دنیا دکھاوے کوصغری بیگم بھی چل کر تسلی دلاسا دینے پہنچی۔