ابا ہی تھا جن کی آمدن سے زیادہ خرچے نکلتے تھے ' یہ گھر میں تو اماں زائد آمدن کے لئے کام کرتی تھیں . ان کا گھر گلی کے کشادہ اور پکے گھروں میں شمار ہوتا تھا . اسی لئے زائد جگہ پر اماں نے چمنیاں لگا لی تھیں . گھر کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹی بھٹی بھی تھی جو ابا نے خود بنائی تھی . کچھ عورتوں نے دوبارہ دیہاڑی پر آنا شروع کر دیا تھا ' لیکن پھر بھی بڑی مشکل تھی . ان کی پہلے بھی ساری تگ و دو روٹی کے لئے ہوتی تھی ' لیکن یہ تگ و دو اب بقا کی جنگ میں بدل چکی تھی.
دیہاڑیاں دینے ' تیل کے خرچے کو نکالنے کے بعد اتنے پیسے ہی بچتے تھے کہ وہ دال روٹی کر لیتے بمشکل دو وقت کی . بڑی اور چھوٹی آپا دوپہر کا کھانا چھوڑ دیتیں کہ وہ کھا کر آئی ہیں . سجاوٹ کرنے کے پیسے جوڑائی اور سدھائی سے زیادہ تھے .اماں کو بھی اطمینان تھا کہ دونوں خود اپنی کمائی سے اور کچھ نہیں تو بیاہ کے چاولوں کا ہی خرچ اٹھا لیں گے .
پہلے تیرہ چمنیاں جلتی تھیں تو سب مل کر پچاس سے ساٹھ توڑے چوڑیوں کے تیار کرتے تھے . اب اماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ یہ لوگ نوے سے سو توڑے تیار کریں .عورتوں کی تعداد بڑھانا نہیں چاہتی تھیں .
سارا سارا دن چمنیوں کے آگے گزرتا . گرمی کے دن اور چمنی کی تپش کے عادی ہو گئے ہیں . انگلیوں کی کھال تو ویسے ہی جلی جلی محسوس ہوتی .
ابا کے جانے کے بعد اماں کی تو جیسے ساری بیماریاں کہیں گم ہو گئی تھیں اور یہ بھی اچھا ہی ہوا کیونکہ اماں کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ سب بچوں سمیت مٹی کا تیل پی لیتیں یا پھر بیماریوں کو بھول کر چوڑیوں کے سروں کے ساتھ گھر کی جوڑائی بھی کر لیتیں .
ایک تیسرا راستہ بھی تھا جو اماں کو تو " پتا " تھا لیکن اس کا " پتا " انہوں نے ابھی اپنی اولاد کو نہیں بتایا تھا اور نہ ہی کبھی خود اس راستے پر گئی تھیں .
پھر یوں ہوا کہ کھانا کم پڑنا شروع ہو گیا کیونکہ دونوں اپاؤں نے سجاوٹ کے کام کے لئے جانا چھوڑ دیا تھا . کاکی نے تو باقاعدہ جھگڑا کیا تھا کہ وہ نہیں جانتیں تو وہ اور ناجی چلی جاتی ہیں ' لیکن اماں نے اس کی وہ دھلائی کی کہ الامان ....
چھوٹا .... گھر بھر کا لاڈلا اور اکلوتا لڑکا تھا . بھوک کا کچا بھی ' جب اسے دوپہر کے کھانے میں روٹی کم ملی تو اس نے واویلا کیا . کسی نے توجہ نہ دی تو کھانا چھوڑ دیا کہ آدھی روٹی کھا کر بھی تو بھوکا ہی رہنا ہے نا تو اچھا ہے نا کہ وہ آدھی بھی نہ کھائے. اس سے پہلے کے اماں اسے مارتیں ' چھوٹی آپا نے اپنی روٹی آگے کھسکا دی . اس نے آپا کو دیکھا اور پھر کھا گیا .
اس رات جب سب سو رہے تھے تو پیروں کے درد سے نڈھال مینا نے سنا کہ رات ساکت نہیں ہے بلکہ کرلا رہی ہے . رو رہی ہے . تھکاوٹ سے مندی آنکھیں کھلنے میں ناکام تھیں ' لیکن تجسس تھا ... کہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ نیند کے خمار میں ہی اٹھ بیٹھی . بڑے کمرے میں جہاں سب اکٹھے سوتے تھے وہاں اماں نہیں تھیں . بچے کی فطرت تھی کہ وہ کہیں سے آئے ' کہیں جاۓ یا سو کر اٹھے اسے سب سے پہلا خیال ماں کا ہی آتا ہے . ماں کو غائب دیکھ کر مینا بھی بھرے کمرے میں سہم گئی پھر چوکس ہوگئی .