" آپ ایسے نہ سوچیں ماما ."
" تمہیں مجھ سے کیا کہنا چاہیے تھا . یہ سب جو تمہاری بہن نے کہہ دیا ."
" ہماری بد قسمتی ہماری تدبیروں سے نہیں بدلتی ماما . میرے ساتھ جو ہوا وہ میرا نصیب تھا ."
" تمہاری اس بد قسمتی کی وجہ میری بے جا ضد بنی . کہہ دو جاں فزا.... اگر تمہاری شادی حارث سے ہو جاتی تو ...."
" میرا نصیب حارث تھا ہی نہیں ماما ... اپ خود کو الزام دینا چھوڑ دیں ."
اس نے تو کہہ دیا کہ میں خود کو الزام دینا چھوڑ دوں لیکن کیا میرا ضمیر مجھے ملامت کرنا چھوڑ دے گا ؟ میں جو ہزار طریقوں سے اپنے ضمیر کو بہلانے کی کوشش کرتی ہوں ' وہ بہل جاۓ گا ؟ امان' خالہ ' ابا ' مژدہ ان سب کی نگاہیں جو کچھ جتاتی ہیں ' میں ان نظروں سے کتنی دیر تک بچی رہ سکتی ہوں . آج مژدہ نے وہ منہ سے کہہ ہی دیا جو وہ اشاروں سے کہتی تھی .
" مجھے کسی صورت بھی جوا ئنٹ فیملی میں نہیں رہنا اماں. بس آپ الگ گھر لیں ' بے شک کراۓ کا گھر لے لیں ."
" دیکھو ناجیہ ! شادی میں صرف تین ہفتے رہتے ہیں . ایسے وقت میں الگ گھر ؟ کیوں پریشان کر رہی ہو مجھے ؟ اماں نے سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا .
" ٹھیک ہے تو شادی لیٹ ہو سکتی ہے ناں ! بیکار بحث بڑھانے کا فائدہ ." میں نے اپنے ناخنوں کو گھورتے ہوئے کہا .
" اگر الگ گھر ہی چاہیے تھا تو تم نے پہلے کیوں نہیں کہا ؟"
" ڈیڑھ سال ہماری منگنی رہی ہے . باتوں باتوں میں کتنی بار آپ سے الگ گھر ڈسکس کر چکی ہوں ."
" تمہارا ڈریم ہاؤس لے دوں گا ناجیہ ! تھوڑا صبر کرو ' لیکن ایسے ؟ اتنی جلدی ؟"
" اپ کی نظر میں میری بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اماں! لڑکیاں تو نجانے کیا کیا فرمائشیں کرتی ہیں . صرف اتنا ہی تو کہہ رہی ہوں کہ آپ الگ گھر کا انتظام کریں . مجھے پتا ہے کہ آپ افورڈ کر سکتے ہیں ." میں نے روہانسی ہو کر کہا .
" بات افورڈ کرنے نہ کرنے کی نہیں ہے ' وقت کی ہے . اب جبکہ ....اماں نے بے بسی سے میری طرف دیکھا .
" اب میں کوئی بات نہیں سنوں گی . مجھے رخصت کروا کر لے جانا ہے تو الگ گھر میں لے جائیں ورنہ ہمارے راستے الگ ہیں ."