ایسا ہی کڑا وقت رانا آفتاب کے خاندان پر آیا تھا . بیٹا اپنا تھا وہ کس کا گریبان پکڑتے . سزا کا سوچتے تب بھی اپنا ہی جگر کٹتا' بے بسی سے دونوں بھائی دیواروں سے سر مار رہے تھے .
کہتے ہیں کہ غربت کے دن آ جائیں تو صبر و شکر سے کٹ جاتے ہیں لیکن اگر ذلت کے دن آ جائیں تو نہ ہی صبر نیکی بنتا ہے نہ ہی شکر کیا جاتا ہے . بس اک بے رحم ان دیکھا خنجر ہوتا ہے جو پورے خاندان کو اندر ہی اندر قتل کر دیتا ہے .
آٹھ دن پر لگا کر اڑ گئے . عا صم بھوکے شیر کی طرح خونخوار پھرتا ' مہمان آنے شروع ہو گئے تھے . دونوں بھائیوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں . راحیلہ بیگم اور رضیہ بیگم تو ہوش سے ہی بیگانہ ہو رہی تھیں . اطہر اور نازلی تھے جو بھانت بھانت کے مہمانوں کو سنبھالنے میں ہلکان ہو رہے تھے . عا صم سرے سے غائب تھا اور فارہ کو بالکل چپ لگ گئی تھی . وہ خالی نظروں سے سب دیکھ رہی تھی . جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی تھیں . کسی عورت کے منہ سے نکلنے والی چنگاری رانا آفتاب کے کان میں بھی پڑی.
" ارے بڑی بھاگ گئی تو کیا ہوا چھوٹی تو ہے نا . اس طرح کی ذلت کے بعد اور تو کوئی بیاہنے آئے گا نہیں . گھر کی بات گھر میں رہ جاۓ گی . پھر بیٹا بھی تو بھائی کے خون کا پیاسا ہوا ہے . اس طرح سے اسکا غصہ بھی جھاگ بن کر بیٹھ جاۓ گا ." رانا آفتاب نے یہ سب بہت غور سے سنا تھا اور ایک لمحے میں فیصلہ کیا . عا صم اس بات کے لئے راضی نہیں ہو رہا تھا .
" دیکھ عا صم! ایسا کرنے میں ہمارا بہت بھلا ہے بلکہ فائدہ ہے . ایک تو آفاق پر یہ احسان کر کے اس کو دبا کر رکھیں گے . کیونکہ ہماری نازلی ان کے گھر بیاہی ہے . دوسرا نکاح کر کے تم فارہ سے وہ سارے راز اگلوا سکتے ہو جو وہ طاہرہ کے بارے میں جانتی ہے . تمہارا انتقام پورا ہو جاۓ گا . اور لوگوں کی زبانیں بھی بند ہو جائیں گی ." یہ ساری باتیں عا صم کی سمجھ میں آ گئی تھیں . فارہ سے کسی نے نہیں پوچھا .
اطہر آفاق نے دبا دبا سا احتجاج کیا تھا کہ یہ سب ٹھیک نہیں . ایک تو عا صم فارہ سے کافی بڑا ہے . دوسرا وہ اس صورتحال میں فارہ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے . وہ اپنی دونوں بہنوں سے بہت پیار کرتا تھا مگر رانا آفاق نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی .
" کیا چاہتے ہو تم کہ دوسری بھی رات کے اندھیرے میں منہ کالا کر کے چلی گئی ؟" اور رانا اطہر خاموش ہو گیا .
جیسے تیسے عورتوں نے اسے دلہن بنا دیا تھا .
رخصتی کے وقت ران آفاق نے اسے پیار نہیں کیا تھا . ایک بیٹی نے اعتبار توڑا تھا اور دوسری سے بھی نفرت کرنے لگے تھے . اس دنیا کا دستور رہا ہے غلطی کوئی کرتا ہے اور سزا کسی اور کو بھگتنی پڑتی ہے .
اس گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے اپنی خواہشوں ، محبتوں اور اعتبار کو فارہ آفاق وہیں چھوڑ آئی تھی . جانتی تھی ! اسے طاہرہ کی بہن ہونے اور فاخر کی منگیتر ہونے کی سزا بھگتنی ہے .