" ابو جی مت ماریں امی کو ، انہیں بھی آپکی طرح کچھ نہیں پتا ."
رانا آفاق نے ایک تھاپر کھینچ کر فارہ کو دے مارا . ان کا رخ اس کی طرف ہو گیا تھا .
" پھر تجھے پتا ہو گا . ہر وقت ایک ساتھ ہوتی تھیں ."
رانا آفاق سرخ انگارہ آنکھیں لئے فارہ سے پوچھ رہے تھے .
" دیکھ فارہ ! تیرے باپ کی عزت تیرے پیروں میں پڑی ہے . مجھے بتا دے کہ وہ کون سے شہر گئے ہیں . میں وعدہ کرتا ہوں تجھ سے . طاہرہ کی شادی فاخر سے ہی کروں گا اور تو جس سے چاہے گی . کارڈ بانٹ دیے گئے ہیں . ایک ہفتے بعد مہمان آ جائیں گے . اور تیرے باپ تایا کی عزت کا جنازہ نکل جاۓ گا . چالیس سال کی کمائی ہوئی عزت لمحوں میں لٹ جاۓ گی ."
رانا آفاق بے بسی سے رونے لگے تھے .
فارہ ان کے قدموں میں گر کر رونے لگی .
" ابو جی ! مجھے کچھ نہیں پتا . آپا نے ایسا کیوں کیا . وہ تو عا صم بھائی سے بہت محبت کرتی تھیں . "
کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اسی وقت رانا آفتاب اور انکی بیوی راحیلہ روتے ہوئے داخل ہوئے .
" آفاق ! یہ کیا ہو گیا ، ہمارے بچوں نے ہمیں کس گناہ کی سزا دی ہے ؟" دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے تھے جبکہ راحیلہ بیگم اپنی بہن رضیہ کو سنبھالنے لگیں .
" عا صم کی آنکھوں میں تو خون اتر آیا ہے .پولیس کو فون کر دیا ہے ، زندہ یا مردہ پکڑ لائیں .
سارے دوستوں کو ادھر ادھر بھیج دیا ہے . آفاق ! جوان بیٹے کی لاش دیکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں . تم .... تم عا صم کو سمجھاؤ . اپنے بھائی سے انتقام نہ لے ."
" لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ ان کی بات تو سالوں سے طے ہے ' فاخر کے اسرار پر ہی فارہ کو مانگا تھا اور طاہرہ عا صم کا جھکاؤ بھی ایک دوسرے کی طرف تھا . طاہرہ کو تو کبھی فاخر سے مذاق کرتے نہیں دیکھا کہاں یہ انتہائی قدم اٹھا لینا . بات کچھ اور ہے ." وہ بہن کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں .
" یہ دو لیٹر ان دونوں کے بیڈ روم سے ملے ہیں . "
رانا آفتاب نے غصے سے راحیلہ بیگم کی طرف وہ خط پھینکے . جس پر لکھا تھا ." میں یعنی فاخر اور طاہرہ اپنی مرضی سے گھر سے ہمیشہ کے لئے جا رہے ہیں . ہمیں تلاش کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہ کی جاۓ ." یہی دو لائنیں طاہرہ نے لکھی تھیں . حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ گھر سے کچھ بھی لے کر نہیں گئے تھے . سواۓ ایک تصویروں کے البم کے .
عا صم دھاڑتا ہوا اندر داخل ہوا .
" آسمان نگل گیا ہے انھیں ."