SIZE
1 / 10

پتا نہیں وہ شش جہت ہر سو جھلملاتے آئینوں کا منظر کوئی خواب یا تھا حقیقت .

اتنے سال گزر جانے اور فہم کی پروازوں میں اونچی اڑانیں بھر لینے کے باوجود بھی قدسیہ اس راز کی حقیقت نہ پا سکی تھی کہ بچپن میں نانی کے گھر کی چھت سے .... جو سڑک پار کا باغ نظر آتا تھا تو اس رات وہاں واقعی خوبصورت حور صفت لڑکیوں کے ہجوم نے شیشے جڑے گھڑے سروں پر رکھ کر رقص کیا تھا یا وہ سارا منظر محض قدسیہ کا خیال تھا ....خواب تھا .... بچپنا تھا .

حالانکہ تب وہ اتنی چھوٹی بھی نہ تھی کہ خواب اور حقیقت میں فرق معلوم نہ کر سکتی . پر اتنی بڑی بھی نہ تھی کہ سیڑھیاں اتر کر رات کی تاریکی میں اس باغ میں جا کر خود اندازہ لگا سکتی کہ رقص اور کسی انجانی خوشی میں غرق وہ لڑکیاں جیتی جاگتی ہیں یا چاندنی راتوں میں صحرا میں دکھتے پانی کی طرح نظر کا دھوکا .....

آنے والے دنوں میں وہ جب بھی اس رات کو یاد کرتی ' بڑی کوفت کا شکار ہو جاتی . کچھ وہ اپنی بچگانہ الجھن کا کسی سے یوں بھی اظہار نہ کر سکتی تھی کہ اس رات کو ہی خالہ کا انتقال جو ہوا تھا .

ابو الحول کی طرح پتھر اور جامد خالہ نجانے کب سے بیمار تھیں . قدسیہ سمیت خاندان کے کسی بچے نے انھیں کبھی تندرست حالت میں نہ دیکھا تھا .

خالہ کے شوہر پچھلے اٹھارہ سال سے لندن میں مقیم تھے . فون پر انکی آواز تو پاکستان آ جاتی تھی . لیکن وہ خود احرام کے راز کی طرح بڑے عرصے سے نظروں سے اوجھل تھے . ' پلٹ کر کبھی خالہ کی خبر لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی . بڑا بلایا گیا ، ڈرایا گیا اور سمجھایا بھی گیا . . لیکن دوسری طرف کا پتھر سرک کر نہ دیا . پھر خبر آئی کہ موصوف وہیں بچوں والے ہو گئے ہیں ، اس راز کے کھل جانے کے بعد قصے کیا رشتہ بھی ختم کر دیا گیا .

خالہ کا انتقال ہو گیا ، نجانے کس بیماری ، کس روگ کے کارن ......

شوہر کو خبر دے دی گئی . فون کے دوسری طرف بڑی دیر تک خاموشی رہی پھر " انا للہ وانا علیه راجعون " کہہ کر یہ باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا .

ہاں تو جس رات خالہ کا انتقال ہوا تھا اسی وقت یا اس سے پہلے اس نے باغ میں خالہ کو بھی تو دیکھا تھا . ایسی خوشی میں مست جو خالہ کے چہرے سے ساری زندگی تو جھلک نہ سکی . اب اگر قدسیہ یہ بات نانا ابو سے یا کسی اور سے کہہ دیتی کہ اس نے خالہ کو دیکھا تھا .... باغ میں ....محو رقص .... تو کیسی کیسی پٹائی ہوئی تھی اس کی .... سیدوں کی لڑکی اور رقص ....