" حلیمہ بیٹا ! آج شام کو وہ پنک کلر کا سوٹ پہن لینا جس پر کام ہوا ہے اور بیٹا ! میری مانو تو ہم رنگ لپ اسٹک بھی لگا لینا . آج شام کو راشدہ خالہ کچھ خواتین کو لے کر آ رہی ہیں . الله سے امید ہے کہ میری بچی کے بھی نصیب بھی کھل جائیں گے . بڑی اس دلائی ہے تمہاری خالہ نے . "
امی نے ہمیشہ کی طرح بجیا کو دھیمے لہجے میں سمجھایا مگر مجھے آج بھی قوی امید تھی کہ امی کا مدعا سمجھ کر بھی وہ انجان بنی رہیں گی جو ہمیشہ سے ہر مہمان کے سامنے کرتی آئی ہیں . میں نے تو جل کر کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا . ان کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا مگر شام کو بالکل میری سوچ کے مطابق ہی ہوا .
امی کے کہنے پر گلابی جوڑا تو انہوں نے زیب تن کر لیا تھا ' لبوں پر پنک الپ اسٹک بھی سجا لی تھی ' آنکھوں میں کاجل کی ہلکی سی لکیر بھی نمودار ہو گئی مگر دوپٹے کے معاملے میں کوئی رو رعایت نہیں تھی . بلوں کی کس کر چوٹی گوندھ کے پیشانی کو مزید چوڑا کر لیا . اوپر سے پورے سر کو دوپٹے سے ڈھانپ کر اپنے گرد ایسے لپیٹا جیسے کسی میلاد میں جا رہی ہوں .
چاۓ کی ٹرالی لئے سنجیدہ سی صورت بنائے جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو خواتین بجیا پر نظر ڈالنے کے بعد آپس میں نظروں کا تبادلہ کرنے لگیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے پر اپنی راۓ بھی واضح کر دی . میں جو کھڑکی سے لگی یہ سارا منظر ملاحظہ کر رہی تھی ، ان کی نظروں کو دیکھ کر ہی بھانپ گئی تھی کہ " یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی " اور وہی ہوا جس کے خوف سے ہمارے دل لرز رہے تھے . انہوں نے چاۓ کے ساتھ رکھے لوازمات سے انصاف کرنا بھی گوارا نہ کیا اور خالی چاۓ پی کر اٹھ کھڑی ہوئیں.
" معاف کرنا بہن ! آپ کی بچی بہت سادہ ہے ہمارے بچے کی ڈیمانڈ بولڈ اور پر کشش لڑکی ہے ، ہمیں اجازت دیں ." انہوں نے تو غیر اخلاقیات کا ایسا مظاہرہ کیا کہ بجیا کے منہ پر ہی صاف انکار کر کے چلی گئیں. امی صوفہ پر بیٹھی جیسے ڈھے سی گئیں . راشدہ خالہ انھیں تسلی دینے لگیں اور بجیا نارمل چہرہ لئے کمرے کی طرف چل دیں .
" ہونہہ ! یہ کہاں باز آئیں گی اپنی سادگی سے ." میں نے نخوت سے جملہ ان کی طرف اچھالا اور امی کے پاس ہی بیٹھ گئی .