اور میں جانتی تھی سب ناشتہ کر کے نکلے تھے . اپنی اپنی " مرضی " کا کھا کر لیکن ، شکر الحمدللہ کہنے کی بجاۓ سب " گیس کی عدم فراہمی " اور ملک کو برا بھلا کہہ کر نکلے ہوں گے . گیس نہ ہونا ایشو تھا یا پھر خوراک کی قلت کا بڑا ایشو تھا ؟ بھرے پیٹ جینا اور خالی پیٹ جینا . گھر کے پکے کھانے سے خالی پیٹ بھرنا بڑا مسلہ یا پھر خالی پیٹ مرنا بڑا پرابلم تھا ؟
" پرابلم کہاں تھا ؟" جیسے ہی یہ سوچ آئی ، میرا دل ڈر گیا .
آج پہلی بار میرا نا شکرا دل اپنی نا شکری پر ڈرا تھا .
*****************************
اتنے دن سے سورج نہ نکلا تھا، ماسی کپڑے دھوتی ، ڈرائیر میں سکھا کر پھر اوپر والے پورشن میں صوفوں پر کرسیوں پر جگہ جگہ ڈال کر سکھاتی . جرابیں سکھانا اور بھی مشکل ہو رہا تھا . جرابوں کی روز ضرورت ہوتی تھی اور جرابیں دنوں نہ سوکھتی تھیں . بہت مسلہ ہوتا تھا . کپڑے یہاں وہاں پڑے سوکھتے رہتے .
میں اپنے بیٹے کی جرابیں لینے اوپر آئی تھی . ایک ایک کپڑا ماسی الٹ پلٹ کر رکھ رہی تھی . اسکی بیٹی کم نمی والے کپڑے کھڑی استری کر رہی تھی .
" کیسی ہو رشیدہ ! " میں نے ویسے ہی پوچھ لیا تھا .
" الله دا بڑا شکر اے باجی !" رشیدہ نے بڑے دل سے کہا تھا .
اس کا اتنے دل سے شکر ادا کرنا مجھے متوجہ کر گیا تھا . شاید میری شرمندگی ابھی تازہ تازہ تھی اپنی نا شکری پر .
" رشیدہ تمہارے گھر گیس آتی ہے ؟" یہ بھی میں نے ایسے ہی پوچھ لیا .
" باجی اسی کتھے بل دین جوگے ! آپ کے گھر کے لان سے سوکھی لکڑیاں لے کر جاتی ہوں درختوں کی ، وہ ہی جلاتے ہیں ."
مجھے یاد آیا . واقعی رشیدہ تو بہت باقاعدگی کے ساتھ لکڑیاں چن کر یا کاٹ کر لے جاتی تھی . " تو تم کیسے لکڑیوں پر کھانا پکا لیتی ہو روز ؟" میں نے بہت حیرت سے کہا .
جوابا رشیدہ ہنس کر بولی . " جیسے تسی باربی کیو کر لیندے ہو ."
چلو بھر پانی ہوتا تو میں ڈوب جاتی . رشیدہ جیسی ان پڑھ نے مجھے ایک آئینہ دکھا دیا تھا اور ایک نئی سوچ کا دروازہ کھول دیا تھا .
ایڈونچر .... فن ....پارٹی .... پکنک کے نام پر ہم بہت بار لکڑیاں جلا کر کھانا پکا لینے ہیں . مزہ کرتے ہیں . اس مزے میں مرضی شامل ہوتی ہے .کبھی گلہ نہ کیا ہم نے اور آج .... ہم ایک مسلے ، ایک پرابلم ایک قوم بن کر فیس کرنے کی بجاۓ بس اپنا اپنا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں . تیرے گھر کی گیس ، میرے گھر کی گیس . تیرے علاقے کی بجلی ، میرے علاقے کی بجلی .... میرا درد ، میری تکلیف ، میرا مسلہ. ہم ایک قوم نہیں رہے . ہمیں بس اپنے مسائل نظر آتے ہیں سب کہاں ہیں ، کیسے ہیں .... جائیں بھاڑ میں . ہم اپنی زبانوں کو " نا شکری " کے وار سے آلودہ کر چکے ہیں .