اماں اور بھابی چلی گئیں. تینوں نے ایک دوسرے کی غیرت کا لحاظ رکھا اور آخری بار ملنے سے گریز کیا .
شوکت کھانا کھا کر لیٹ گیا . وہ بھی لیٹ گئی .
" میں جب بھی آتا ہوں تو یہیں بیٹھی ہوتی ہے ." شوکت آتا تو وہ سامنے ہی برآمدے میں چٹائی پر بیٹھی ہوتی ' وہ باورچی خانے میں بیٹھنے لگی . باورچی خانے کے لئے بھی وہی اعتراض ' وہ کمرے میں بیٹھنے لگی ' پھر بھی وہی اعتراض.
اور پھر وہ کہیں بھی نہ رہی . شوکت آتا تو وہ کسی نہ کسی دیوار سے سر ٹکائے کھڑی ہوتی . کبھی اس دیوار سے ' کبھی اس دیوار سے .وہ دیواروں میں ملیامیٹ ہونے لگی .
آئے دن شوکت تالے بدلتا رہتا . ایک بڑا صندوق بھرا پڑا تھا . نت نئے تالوں سے اور اس صندوق کو لگا تالا آئے دن بدلتا . کبھی دونوں کمرے بھی بند کر جاتا ' وہ دوپہر کی روٹی سے بیٹھی رہتی . غسل خانے کے نل سے پانی پیتی رہتی .
جب اسکی پہلی لڑکی ہوئی ' سرما کے دن تھے . کمرہ ٹھٹرا تھا ' سیلن زد ہ ' ہوا دھوپ کبھی ہو کر نہ گزری . ٹھنڈ لگ گئی . نیلی پڑ کر مر گئی . وہ مردہ بچی کے ساتھ شام تک اکیلی رہی .
چند دنوں سے ایک دیوار پر دھمک سی ہوتی تھی . ' جیسے اس پر مسلسل ضربیں لگائی جا رہی ہوں .یہ پڑوسیوں کے ساتھ والی دیوار تھی . ایک دن دبے پیروں اور بے وقت شوکت آیا تو وہ اسی دیوار کے ساتھ ٹکی بیٹھی تھی . کچھ ہی دیر میں اس دیوار پر ضربیں لگنے لگیں . جیسے کوئی دیوار کے ساتھ لگا کوئی کھیل کھیل رہا ہو . کئی دنوں سے ایسا ہی ہو رہا تھا . شوکت نے آنکھوں سے سونگھنا شروع کر دیا ' پھر اپنا کان دیوار کے ساتھ لگا دیا . شاید کوئی بڑا وزنی فٹ بال تھا جو دیوار پر مارا جا رہا تھا . شوکت بڑا ڈنڈا اٹھا لایا . اور ٹھیک اسی جگہ دھڑ دھڑ مارنے لگا ' دھمک وہاں ضرور گئی ہو گی . یوں ہوتا کہ دو وہ یہاں سے مارتا اور دو ہی وہاں سے ضربیں پرتین .
شوکت کی ضربوں کے جواب آنے لگے . کھیل شروع ہو گیا . وہ شوکت کے پیچھے ہی کھڑی تھی . ادھر سے ملنے والی ہر دھمک پر شوکت اسکی طرف دیکھتا . پھر اس پر نظریں ٹکائے شوکت پاگلوں کی طرح ضربیں مارنے لگا . آخری دو ضربیں مار کر وہ اس پر جھپٹا .