SIZE
4 / 7

وہ کوئی سوال نہیں کر رہا تھا ' نہ ہی اسے گالیاں دے رہا تھا ' وہ عمل پر یقین رکھتا تھا .

جمال گھر سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا ' شوکت یہی چاہتا تھا ' نند نے جمال کو کسی جاننے والے کے ہاں دوسرے شہر بھیج دیا . اماں اس سارے صدمے سے آخری سانسیں لینے لگی . چند مہینوں میں ہی چل بسی . ' اب گھر سے مر کر نکلنے کے لئے ایک وہی بچی تھی .

اب شوکت وقت بے وقت گھر آ جاتا . بیرونی دروازے کے ساتھ ہی غسل خانہ بنا تھا ' آ کر اس میں چھپ جاتا اور ہوا دان سے سر نکال نکال کر دیکھتا . کبھی چپکے سے آ کر تیزی سے چھت پر چڑھ جاتا .وہ اندر کمرے میں ہوتی یا باورچی خانے میں .

وہ ایسے ظاہر کرتی جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو ' ورنہ شوکت کی بو تو اس کے وجود میں گھستی چلی جاتی .

شوکت جیسے مرد کے ساتھ رہتے ہوئے تو مردہ عورت کی حسیں بھی بیدار ہو جائیں' اس میں تو ابھی جان تھی .

دو کمرے ساتھ ساتھ تھے .آگے برآمدہ ' برآمدے کے پار باورچی خانہ اور صحن. بجلی چلی جاتی تو اندھیرا جان کو آتا .

وہ برآمدے میں صبح سے سبزی بنانے لگتی اور شام کر دیتی ' کبھی چھری پکڑ لیتی ' کبھی چھوڑ دیتی اور وہ کیا کرتی . میکے سے کبھی کبھی اماں اور بھاوج آ کر مل جاتی تھیں ' وہ اتنا لمبا سفر کر کے آتی تھیں ' لیکن انھیں ہر صورت شوکت کے صبح نکلنے سے پہلے آنا ہوتا تھا ' پھر تو باہر سے تالا لگ جاتا تھا نا. دو بار ایسے ہی آ کر پلٹ گئیں. ایک دن آئیں تو ساتھ والوں کے گھر میں رک گئیں کہ مل کر ہی جائیں گی . شام کو شوکت آیا تو اندر آئیں رابعہ کو خبر نہیں تھی کہ ساتھ والے گھر میں کون رہتا ہے ' پڑوسن نے بہت دیر تک اماں سے باتیں کیں شوکت کی .

" سر دکھ رہا تھا میرا ' یہ تیری بھاوج میرا سر دبانے لگی ' ان کا بڑا لڑکا .... خدا اسے اجر دے جھٹ بازار ...."

" اے مائی !" وہ تینوں برآمدے میں بیٹھی تھیں .

شوکت کمرے میں تھا ' وہیں سے حلق میں سے کرخت آواز نکالی . اماں ڈر گئیں.

رابعہ بت سی بن گئی . جیسے وہ ہمیشہ سے مار کھاتے ہوئے بن جاتی تھی . اس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ شوکت کی منٹ کرے کہ وہ اسے نہ مارے یا خود کو اس سے بچاۓ. کمرے سے نکل کر وہ باہر آیا .

" دو کالے بال نہیں بچے تیرے اور اپنی لڑکی کو غیر لڑکوں کے قصے سنا رہی ہے ."

" وہ ... میں .... پورے بالوں والی اماں ڈر گئی .

" رکشا لایا ہوں ' نکل آؤ باہر ."