SIZE
2 / 9

" پتا نہیں ! اسے عشق کہہ سکتے ہیں یا نہیں ." پھر اسے بھولی بسری کہانیاں یاد آئیں. جب گھر کی چھت پر چند چٹھیوں کے تبادلے کے بعد پڑوسن سے پہلی ہی ملاقات پر باپ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور چھترول بھی کی . دوسرا اپنی کلاس فیلو سے جو کچھ ہی عرصے بعد ایک ڈی یس پی کے بیٹے کے چکر میں اسے داغ مفارقت دے گئی .

" ارے یار ! ساحر کالج لائف میں عشق کہاں . یہ تو پسندیدگی اور دل لگی ہوتی ہے . عشق تو پکی عمر کا ہوتا ہے . ہر وقت ہر کسی کے عشق میں فرہاد بنا ہوا ." فرہاد ہنسا .

" بس یار ! ابا نے جلدی شادی کروا دی ' فی ملازمت اور بیوی بچوں کے چکر میں وقت ہی نہیں ملا ." اس نے قدرے خجالت سے کہا .

"ساحر ! تخلیق کے لئے تو عشق بہت ضروری ہوتا ہے . اب ہمیں ہی دیکھ لو ! لڑکپن سے اس عمر تک سینکڑوں عشق کیے. ان تجربوں کو اپنی شاعری میں سمو دیا .

اسی لئے تو یکسانیت کا شکار ہو رہا ہے ." وہ پان کھاتے ہوئے ہلکا سا ہنسا .

میں سوچ میں پڑ گیا ." کیا واقعی میری تحریریں یکسانیت کا شکار ہیں . کیا میں خود کو دوہرا رہا ہوں ." یہ احساس میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا .

" ساحر میاں! یہ جو لڑکی ہے ناں سحر' کسی کا فون نہیں اٹھاتی . زیادہ میل جول اسے پسند نہیں . بلکہ کئی ادیبوں نے بھی شکایت کی کہ بہت ہی مغرور لڑکی ہے . میسج کا جواب تک نہیں دیتی . تو کوشش کر کے دیکھ ! شاید تیرا سحرکام کر جاۓ. تو ساحر ہے ناں! وہ کھل کر ہنسا .

اور میں سوچ میں پڑ گیا . پھر پتا نہیں کس جذبے سے مجبور ہو کر میں نے اسی وقت مناسب لفظوں میں اس کے تازہ افسانے پر رائے دی . مگر میسج کا جواب تک نہ آیا . چھوٹا سا ایک لفظ شکریہ کا بھی نہیں .

اس دن کے بعد میں نے اس کے سارے ادبی پرچوں میں چھپی تحریریں جمع کیں اور باری باری پڑھ کر رائے دیتا گیا . تعریف کے پل باندھ دیے. وہ اسکی نویں تحریر تھی . جب اسکا جواب صرف تھینکس کی صورت میں ملا .

میرے حوصلے بلند ہو گئے . مرواتا ہی سہی اس نے جواب تو دیا .

پھر وہ میرے ہر میسج پر شکریہ کا چھوٹا سا لفظ بھیجتی اور میں اور زیادہ محنت اور لگن سے اس کی کہانیوں پر تبصرے لکھ کر اسے بھیجتا رہتا . میرے ارد گرد اسکی تحریروں کا میلہ سجا رہتا . میں لفظ چن چن کر اسے بھیجتا رہتا .

پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا . میں پاگل ہو گیا تھا . ہر حالت ' ہر قیمت پر سحر سرور کو فتح کرنا چاہتا تھا . اور ادبی دنیا میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا . سکندر اعظم بننے کے چکر میں پتا ہی نہیں چلا کہ سامنے ایک صنف نازک ہے جس کے احساسات کانچ کی طرح نازک ہوتے ہیں . ذرا سی ٹھیس لگی اور جان پارہ پارہ ہو گئی .