عالیہ باغوں معاون سویرے کی سیر کو نکلی تھی ' جب اچانک ہی بائیں پہلو میں اٹھتے درد ٹیسوں نے اس کے کھڑے وجود کو ڈھا دیا . وہ سینے کو اپنی ہی بانہوں میں بھینچتے ہوئے بیٹھتی چلی گئی .اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا . جب ذرا کچھ سنبھلی تو اسے احساس ہوا کہ اس کا خاندانی عارضہ قلب اس تک پہنچ چکا ہے اور کسی بھی لمحے اسکی کھلکھلاتی زندگی کو ڈس لے گا .
وہ خود بھی ایک ڈاکٹر تھی اور اپنی حالت کو خوب سمجھ سکتی تھی . اسکے ساتھ ڈاکٹر جو کہ اس کا منگیتر بھی تھا ' اس اداس بھیگی شام میں کاسنی گلابوں کا گلدستہ لئے اسکی عیادت کو آیا اور مژدہ سنا گیا کہ کہ وہ عارضہ قلب والی کسی خاتون سے شادی نہیں کر سکتا .
درد پہ پھاہا رکھنے کی بجاۓ جو یہ صدمہ ملا ' اس سے عالیہ شاید ساری عمر سنبھل نہ پاتی . مگر اس نے ایک اور راہ نکالی . اگلی ہی صبح بستر چھوڑ اٹھ کھڑی ہوئی ' شہر چھوڑ دیا اور دور دراز ایک پہاڑی علاقے کے چھوٹے سے گاؤں کے خستہ حال اسپتال میں ٹرانسفر کرا لیا اور پہاڑی جھرنوں کے شور میں اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرنے لگی .
عالیہ نے اسپتال سے ملحق سرکاری مکان میں ڈیرہ ڈال لیا . مکان کی حالت بھی اسپتال کی طرح کافی ابتر تھی . مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ' کے مصداق وہ وہاں زیست کرنے پر راضی ہو گئی .وہ دن کو مریض دیکھتی اور شام کو کھڑکی سے لگی بیٹھی رہتی . سورج کو ڈوبتے دیکھتی اور پھر ابھرتے دیکھ کر اٹھتی . درمیان کا وقت کیسے بیتتا ' کچھ پتا نہ چلتا .
یونہی متواتر گونجتی ہوئی اداس خاموشی میں دن کٹتے جاتے اگر برسات کا موسم نہ ان ٹپکتا . بارشیں جوں جوں زور پکڑتی گئیں' گھر کی چھتیں ٹپکنے لگیں . عالیہ کو اپنا جمود توڑنا ہی پڑا. اس نے اسپتال کے عملے سے بات کی کہ اسے گھر کے لئے ایک مزدور چاہیے جو کہ مرمت کا کام جانتا ہو .