وہ ایک بار پھر اس حسن بے خبر سے رابطہ کرنے کو بے چین ہوا . لیکن صد افسوس کہ اس بار بھی اس کو ناکامی ہی اور بار بار مختلف قسم کے پیغامات ملتے رہے جن کا مفہوم یہی تھا کہ رابطہ ممکن نہیں . اب اس نے ایک موبائل فون لیا اور اس بار اسے زیادہ دشواری نہ ہوئی کہ ایک تو عادی ہو گیا تھا ' دوسرے طلب کی زیادتی نے رسد کی قیمتیں کم کر دی تھیں .لیکن اس کے ایس ایم ایس بھی اس کی طرح منزل مقصود پر نہ پہنچے . ہر بار نمبر غلط ثابت ہوتا رہا .اس کا دل بری طرح ٹوٹ چکا تھا . ہر بار ذلت ' ہر بار ناکامی ... یا الہی ! یہ ماجرا کیا ہے .ابھی وہ ان سوچوں میں ہی بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی . کھولا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک ڈاکیا در پر کھڑا ہے .
آج اس کا دل بے حد دکھا ہوا تھا . اس کے جذبات بری طرح مجروح ہو چکے تھے . وہ اوندھی پڑی سسکیاں لے رہی تھی . زمانے نے اسے خوب خوب ستایا تھا . اسکی معصومیت کا مذاق اڑایا تھا .. اس کے لئے تو دنیا بازیچہ اطفال تھی اور وہ خود بھی ایک طفل ناداں کی حیثیت سے اس کے مزے اڑا رہی تھی . وہ نہ جانتی تھی کہ اس کی تفریحی حرکتیں یوں اس کی ذات کو پامال کریں گی اور اس کے لئے یہ سب محض تفریح بھی نہ تھی . اس نے دل سے ایک محبوب کی تمنا کی تھی اور اسے تلاشنا چاہا تھا لیکن ہر بار اسے دکھ دیا گیا پہلے ٹیلی فون پر اسے بیوقوف بنایا گیا . وہ اتنی سادہ تھی کہ ہر آواز دل نواز کو اپنا سمجھ بیٹھی . کسی نے اسے اپنی منزل کہا ' کسی نے خوبصورت لہجے میں شعر سنائے اور وہ ہواؤں میں اڑنے لگی ' لیکن دھڑام سے اس وقت گری ' جب وہ سب جھوٹے اور ریا کار نکلے . کچھ دن تک وہ اداس رہی ' پھر اس کے پاس کمپیوٹر آ گیا اور وہ ایک نئی دنیا کی سیر کرنے لگی . یہاں اس کے جذبات کا مزید تماشا بنایا گیا . جھوٹے نام 'جھوٹی پہچانوں سے اسے بیوقوف بنایا گیا . بعد میں اس نے جانا کہ یہاں کچھ معلوم نہیں کہ اٹھارہ سال کی لڑکی اصل میں اڑتیس سال کا مرد ہے یا چالیس سال کا مرد اصل میں چودہ سال کا بچہ ہے . کون کیا ہے ؟ کہاں سے ہے ؟ سب جھوٹ ہے . اس کی طبیعت مزید مکدر ہو گئی جب اس نے یہ جانا کہ یہاں تقریبا سارے لوگ بیمار ہیں . کسی عمر یا کسی صنف سے تعلق سے قطع نظر ان کا مطمع نظر محض جنسی آسودگی ہے ' چاہے وہ اسکرین پر لکھ لفظوں سے ہی کیوں نہ حاصل ہو .
اس نے اس پر لعنت ملامت کرتے ہوئے اسے بھی ترک کر ڈالا اور دنوں اداسی رہی . اب اداسی کے ساتھ ساتھ پشیمانی اور پچھتاوا بھی تھا .