قسمت نے اس بار بھی اس کا ساتھ نہ دیا اور اس کا ہر پیغام اس پیغام کے ساتھ واپس آیا کہ اس نام ' اس پتے کا کوئی صنم نہیں .
بہت دنوں کی کوشش کے بعد یہی اندازہ ہوا کہ وہ مہ جبیں اس کا استعمال ترک کر چکی ہے . کیوں ؟ وہ ٹھیک تو ہے ؟
اسے اندیشوں نے آ گھیرا . اب مزید کیا آ گیا کہ جس کی وجہ سے اس نے یہ مشغلہ متروک کیا . بہت جھنجلایا . دوبارہ کوشش کی' ناکام رہا .سوچا کہ معلوم کیا جاۓ' آئی ڈیبدل ہی نہ دی ہو اور یوں ایک بار پھر اسے نئی خبر موصول ہوئی .
وہ سیماب صفت اس مشغلے سے بھی اکتا چکی تھی . بجلی کی آنکھ مچولیاں ' سرور کی کارستانیاں ' آئی ایس کی بدعنوانیاں ' ان سب نے مل کر اس نازک کو پریشان کر ڈالا تھا اور ان سب جھمیلوں کی کیا ضرورت تھی جب دنیا اس کے ہاتھوں میں آ چکی تھی . یوں محسوس ہوتا تھا کہ ساری کائنات ایک چھوٹی سی ماچس کی ڈبیا میں بند ہو گئی ہو . اب وہ اپنے موبائل سیٹ کی دھنیں بدل بدل کر خوش ہوتی رہتی.رابطے کمپیوٹر سے بھی آسان . نہ کمرے میں بند ہو کر بیٹھنے کی تکلیف ' نہ بجلی کی مصیبت ' نہ ایک مخصوص ٹائم کا پابند ہونا ... بس کہیں بھی ' کسی بھی وقت .... سارے جھنجٹ ختم ہو چکے تھے .
اس بار اس پہلی نظر کے عاشق نے بیٹھ کر پہلی بار سنجیدگی سے اس دنیا کے بارے میں سوچا جو آواز کی رفتار سے بھی تیز بدل رہی تھی . دنیا کہاں جا رہی ہے ؟ اب آگے کیا ہو گا ؟ اور کونسے کرشمے ہوں گے ؟ دنیا تو صدیوں سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے لیکن یہ گزشتہ چند سال؟خدایا انہوں نے تو کرہ الٹ کر رکھ دیا ہے . کیا ہم یوں ہی آنکھیں بند کیے ایک ایک چیز کے پیچھے دوڑتے رہیں گے .
رشتے ' محبت ' خلوص میل ملاقات سب خواب ہوئے . وہ رتجگے کر کے لکھ گئے خط ' وہ کہوں سے لکھ گئے نامے ' وہ خوشبو میں بسے ہوئے پیغام کہ جن کو ناکامی کے بعد بھی کوئی جلا نہ پاتا تھا ' سب خواب ہوئے اور اب سارے زمانے کا سارے زمانے سے ایک ایس ایم ایس کا تعلق رہ گیا ؟
وہ وقت کی اس چال سے سخت اداس ہوا اور فیصلہ کیا کہ غم جاناں کہ جس نے اسے غم دوراں میں مبتلا کر دیا تھا ' اب ترک کر دیا جاۓ. اس نے اپنے نفس کو سمجھایا کہ اب مزید اس دوڑ میں شامل ہونے سے بہتر ہے کہ اس راہ سے کنارہ کشی کر لی جاۓ. نجانے اس جنوں کی وجہ سے اور کیا کیا رنگ دنیا کے دیکھنے پڑ جائیں. اس کے لئے اسکی چوٹی سی دنیا ہی اچھی ہے .
یہ فیصلہ کر کہ وہ دوبارہ اپنی دنیا میں مگن ہو گیا لیکن یہ سب عارضی ثابت ہوا اور اس کے دل نے خود اس پر ثابت کر دیا کہ ابھی دنیا سے پیار و محبت ختم نہیں ہو گیا . ایسا ہوتا تو وہ خود اپنے محبوب کو فراموش کر چکا ہوتا . لیکن ایسا نہیں ہوا تھا اور عشق کی آتش تھی کہ بجھاۓ نہ بجھ رہی تھی اور یہی تو سرشت عشق تھی .