علی مجھ سے کتنا ہی ناراض ہوتے . میں مسکراتی رہتی ... ہر ناراضی کو سہہ جاتی ، وہ دن کو رات کہتے اور میں بھی دن کو رات ہی کہتی . میں ہنس کر ہر وار سہہ جاتی اور مزید سسرال والوں کے قریب ہونے کی کوشش کرتی . لوگ برا کرتے، میں اچھا کرنے کی کوشش کرتی . میں ان کی ہر نفرت کا جواب محبت اور سلوک سے دیتی .
میں نندوں کے بچوں کو پڑھاتی ، ساس کے لئے گرم روٹی اپنے ہاتھ سے ڈالتی ، بیمار نند کے سر میں تیل کی مالش کرتی ، رات ، رات بھر اپنے شوہر کو مناتی، بہلاتی اور بغیر اف کیے ان کی جھڑکیاں کھاتی جاتی .
وہ لوگ میرے صبر و تحمل سے گھبرا گئے . اور میرے کئی نام رکھ دیے گئے کوئی مجھے سیاستدان کہتا تو کوئی چپ گھنی اور کوئی جادو گرنی کہتا ... کیونکہ کم از کم شوہر صاحب اب پہلے کی طرح سب کے سامنے مجھے ذلیل نہیں کرتے . اور یہ جیت کی طرف میرا پہلا قدم تھا .
اور اسی زمانے میں مجھے اندازہ ہوا کہ دراصل وہ لوگ تو اتنی جلدی علی کی شادی ہی نہیں کرنا چاہتے تھے . اور اس حقیقت نے مجھے لرزا دیا .
علی اپنے سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہینڈسم ، تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم تھے . انکا اپنا ذاتی بزنس تھا . وہ لوگ حلوے کے لالچ میں ہمیشہ علی کی شادی کو ٹالتے رہے ، علی کے پیسے کے بل بوتے پر چھوٹے بھائیوں کی بھی شادیاں ہو گئیں مگر بقول میری نندوں کے انھیں علی کے مزاج کی کوئی لڑکی نہ مل سکی اور یوں انکی عمر اڑتیس سال ہو گئی .
خاندان والوں کے اعتراضات اور علی کے خود کہنے پر انہوں نے لڑکیاں دیکھنے کا کام شروع کیا . اک ایسی لڑکی جو کم عمر ہو ... جس کا مزاج ان کے بھائی سے مختلف ہو جو کسی بھی لحاظ سے ان کے سنجیدہ ، میچور اور بزنس مائنڈ ڈ بھائی سے گزارا نہ کر سکے اور ان کی نظر انتخاب مجھ پر ٹھہری ... ادھر پھپھو کو بھی کچھ جلدی تھی .
میں جو بہت زہین تھی ، میرے جملے محفل کو زعفران زار بنا دیتے ، میرے دلائل بہت موثر ہوتے ، مجھ سے بحث میں جیتنا عام طور پر نا ممکن ہوتا ، میں یونیورسٹی کی نا قابل شکست مقررہ ، میں جو چپ رہنا بھی نہیں جانتی تھی ، مجھے چپ سی لگ گئی ، نہ جانے کیسے میں بالکل چپ ہو گئی ، ہر زیادتی ، ہر ذلت ، ہر ظلم ، ہر جھوٹ پر میں چپ ہی رہتی .لیکن الله تو سب کا ہے . میں الله سے اپنے دل کی باتیں کرتی اور مجھے لگتا جیسے الله نے میرے دل پر تسلیوں کے پھائے رکھ دیے ہوں .