موبائل فون کی گھنٹیاں چپ نہیں ہو رہی تھیں . اخباری رپورٹر ، محلے اور اس پڑوس کے لوگ ، ایمبولینس کی آوازیں ، مختلف ٹی وی چینلز کے لوگ ، ڈاکٹرز وغیرہ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا اوپر سے پولیس اپنی تحقیقات میں لگی ہوئی تھی . بڑے بھیا اپنے بھتیجے وسیم ( جو زخمی تھا ) اس کے ساتھ اسپتال میں تھے . دو بیٹوں کی موت کی تصدیق ہو چکی تھی . لیکن وسیم زخمی تھا اس کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی تھی ڈاکٹر گولی نکالنے میں مصروف تھے . غرض کہ اس عجیب اور ہولناک سانحے نے اس گھر کی تمام خوشیو ں کو منٹوں میں نگل لیا تھا .
شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا ... فرحانہ ہوش میں آ کر بچوں کا پوچھتی ... اور پھر سے بے ہوش ہو جاتی اس کی دماغی کیفیت درست نہیں تھی ' چاروں طرف آہیں اور سسکیاں تھیں . بڑا بیٹا بد حواس سا تھا اور تمام مہمانوں کے درمیان افسردہ بیٹھا تھا . ادھر وسیم کی گولی نکال دی گئی تھی حالت اگرچہ خطرے سے باہر تھی مگر ...
غرض کہ وقت آگے بڑھتا گیا وقت کو بھلا کون روک سکا ہے . وقت نے تو پر لگا کر اڑنا تھا اڑتا گیا ... وسیم اگرچہ زندہ بچ گیا تھا مگر معزور ہو گیا تھا . ساس اماں کی کمر اس صدمے سے دوہری ہو گئی تھی اور ویسے بھی عمر اپنا اثر دکھاتی ہے . فرحانہ کو دل کے دورے پڑنے لگے تھے . اس حالت میں انہوں نے الله کی طرف رجوع کر لیا . اب وہ زیادہ تر نماز ، قرآن پاک پڑھتیں اور یک ٹک گھورتی رہتیں . بڑی بہو ہر وقت انکی دلجوئی کرتی رہتیں . اب وسیم بھی نیچے رہنے لگا تھا . اس کی بھی ساری ذمہ داری اب تائی اماں کے ہاتھ میں تھی . اب وہ صرف تائی اماں کو آواز دیتا . بڑےبھیا اب وسیم کے ساتھ ہی سوتے تھے .
ایک دن بڑی بہو فجر کی نماز پڑھ کر سونے لیٹی تو اس کی آنکھ لگ گئی . غنودگی کے عالم میں اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پاؤں پکڑے ہوئے تھا ' اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کوئی جھکا ہوا تھا . بڑی بہو کو سفید سر نظر آیا . دیکھا کہ ساس اماں اس کے پاؤں پکڑے ہوئے ہیں اور کہہ رہی ہیں .