مگر یہ کیا ... بوا بیگم کا حوصلہ افزا اشارہ پاتے ہی انٹی نفیسہ نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور پھر اس کی نازک سی مخروطی انگلی میں پہنا دی .
" ابھی تو یہ ہی انگوٹھی پہنا رہی ہوں مگر انشاللہ شادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گی . اب یہ صائم کی امانت ھے تمہارے پاس ." انہوں نے اسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا . اسے ان کی آواز بھرائی ہوئی سی لگی . یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ وہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکی . بس ہکا بکا دیکھتی رہ گئی . اسے اپنے اندر خالی پن اترتا محسوس ہوا ، ہونٹ خاموش تھے مگر جسم کا ایک ، ایک عضو تڑپ تڑپ کر اس زیادتی کا احساس دلا رہا تھا . صرف سترہ سال کی عمر میں وہ بھلا شادی کے حوالے سے کس طرح سوچ سکتی تھی .
" بوا یہ کیا کیا آپ نے ... میں کیسے بھلا شادی کر سکتی ہوں ." رات وہ ناراض ناراض سی کہ رہی تھی . جب بوا بیگم نے حیرانی سے اس کی برہم صورت دیکھی .
" کیوں ... تم کیوں شادی نہیں کر سکتیں ؟" کافی دیر بعد انہوں نے پوچھا تھا . جب اس نے شاکی نظریں اٹھائیں .
" میرے زخم ابھی تازہ ہیں اور پھر میری عمر ، میری ادھوری تعلیم ... میرا دل تیار نہیں ھے کسی بھی نئے رشتے کے لئے ، اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ کو مجھ سے ضرور پوچھنا چاہیے تھا ." وہ خفا خفا سی بولی جب بوا بیگم نے متاسفا نہ اس کی طرف دیکھا .
" کیا پوچھتی میں تم سے کہ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور میں تمہیں اکیلا کس کے سہارے چھوڑ کر جاؤں یا پھر یہ کہ فاری کیا تم اکیلی اس ظالم دنیا کا مقابلہ کر سکو گی ... تمہارے عمر بڑھنے تک اور تعلیم مکمل ہونے تک تمہاری بوا زندہ رہیں گی ؟ تمہیں بے سہارا چھوڑ کر تو تمہاری بوا مرنے کے بعد بھی بے چین رہے گی . کیا منہ دکھاۓ گی تمہارے ماما ، پاپا کو ... کیا جواب دے گی ان کے سوالوں کا جب وہ پوچھیں گے کہ انکی لاڈلی کو میں کس کے سہارے چھوڑ کر آئی ہوں ." بوا بیگم دکھ سے بوجھل آواز میں روتے ہوئے بولیں تو وہ بھی ان کے قریب آ کر بلک ، بلک کر رو دی . بوا بیگم نے آہستہ سے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور پھر ووہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا . رات بوا سوئیں تو صبح اٹھ نہ سکیں . وہ وحشت سے بت بنی کتنی دیر بے یقین سی ان کے بے جان وجود کو دیکھتی رہی تھی .
بوا کی جدائی ، اکیلے رہ جانے کا خوف ، اب کیا ہو گا کا ڈر... سب نے مل کر اسے اتنا ہراساں کیا کہ اس کے آنسو بھی جیسے اس خوف کی زد میں آتے منجمد ہونے لگے . گھبراہٹ ، بوکھلاہٹ ، بے بسی ، لاچاری نے اسے اندر تک سراسیمہ کر ڈالا تھا . جہاں وہ ازحد سہم گئی تھی وہیں اس کے ارد گرد کا ماحول اک خاموشی اک چپ اور سپاٹ سناٹے کی لپیٹ میں آنے لگا . وہ اکیلی کس طرح بوا بیگم کو انکی آخری آرام گاہ تک پہنچا سکتی تھی . کیا وہ باہر نکل کر چیخے ، چلاۓ یا پھر ہمسایوں کو مدد کے لئے پکارے ، صحیح معنوں میں وہ اب تنہا ہوئی تھی . پھر ڈوبتے کو تنکے کے مصداق اسے یکلخت انٹی نفیسہ کا خیال آیا تو وہ تیزی سے بوا بیگم کی نیلے کلر کی ڈائری کی طرف بڑھی اور پھر ان کا نمبر ملانے لگی . فون کسی مرد نے اٹھایا تھا . وہ حواس باختہ سی روتے ہوئے بوا بیگم کے بارے میں بتانے لگی . ٹھیک بیس منٹ کے بعد انٹی نفیسہ تیس ، اکتیس سال کے دراز قامت ڈیسنٹ نوجوان کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھیں .