" ماشاللہ بہت پیاری ہو ، بیٹا ، الله نصیب اچھا کرے ." نہ چاہنے کے باوجود بھی اس کے گال سرخ پڑ گئے تھے ، اپنی تعریف بھلا کیسے بری لگتی ھے . انھیں کمرے میں چھوڑ کر وہ خود کچن میں آ گئی . کچھ دیر کے بعد وہ چاۓ لے کر جیسے ہی اندر داخل ہوئی بوا بیگم کی بات نے اسے ٹھٹھک کر وہیں رکنے پر مجبور کر دیا .
" مجھے کوئی اعتراض نہیں ھے نفیسہ ، مجھے پھر بھی منظور ھے ، میں اپنی بیٹی کو کوئی سہارا دے کر مرنا چاہتی ہوں جو اس کے ساتھ مخلص ہو ، اسکا احساس کرے اس کا خیال رکھے . وہ بہت بکھر گئی ھے اسے سمیٹ لے اور صائم بیٹے کو میں جانتی ہوں اسکی طبیعت ایسی ہی ھے ."
" مگر پھر بھی میں چاہوں گی کہ تم ایک بار اس سے مل لو ."
" میں نے اسے دیکھا ہوا ھے نفیسہ ، تم فکر نہ کرو ."
" اور کیا فاریہ ماں جاۓ گی ، آخر عمروں کا بھی تو فرق ھے ؟" اک خدشے کے تحت انہوں نے بوا بیگم سے پوچھا تھا .
" وہ میری بڑی فرمانبردار بیٹی ھے ، مجھے اس پر بڑا بھروسہ اور مان ھے اور اور میں جانتی ہوں کہ وہ اپنی بوا کو کبھی انکار نہیں کرے گی . تم بس تیاریاں کر لو جا کر ." پھر انہوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا .
" ارے فاریہ آؤ بیٹا ادھر ... وہاں کیوں کھڑی ہو ."اسی پل اسکی نظر اس کے ساکت گم صم وجود پر پڑی تھی . وہ چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی ان کے قریب آئی چاۓ کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہی باہر آنے لگی تھی جب اس گریس فل خاتون نے اس کے ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب بٹھا لیا .
" یہ میری سہیلی نفیسہ ھے ، پہلے امریکہ میں رہتی تھی اب کچھ عرصے سے اپنے بیٹے صائم کے ساتھ مستقل پاکستان آ گئی ھے ." بوا بیگم کے تعارف کروانے پر بھی اس کا جھکا ہوا سر نہیں اٹھا تھا . اس کا دماغ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے سنی جانے والی ادھوری گفتگو میں ہی الجھا لیا تھا .
" میں نے اپنے بیٹے صائم کے ساتھ تمہارا رشتہ پکا کر دیا ھے . تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ھے ." اس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر ششدر نظروں نے بوا بیگم کی طرف دیکھا . بے یقینی سی بے یقینی تھی اور پھر بوا بیگم کی مان بھری نظروں میں دیکھتے ، نوک زباں پر آئے لفظوں کو اس نے بہ مشکل اندر دھکیلتے آہستہ سے سر جھکا لیا .جسے بوا بیگم رضامندی سمجھتے ہوئے تشکر سے بھیگی آنکھیں لئے مسکرا دیں .
" دیکھا نفیسہ ، میں نہ کہتی تھی کہ میری بیٹی ایسی نہیں ھے ."ان کے پر اعتماد بھرائے لہجے پر اس نے بے ساختہ پہلو بدلا تھا . وہ شادی کے لئے بالکل بھی تیار نہیں تھی مگر وہ اس وقت کچھ بھی کہ کر بوا بیگم کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی مگر رات کو ان سے تفصیلا بات کرنے کی اندر ہی اندر ٹھان چکی تھی .