ابے کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی . پھر وہ پوری کی پوری کیسے ... کیسے مجھ میں آ بسی ؟ اماں نے نہ بین ڈالے ' نہ سینہ کوبی کی ' نہ ہی پچھاڑیں کھائیں. لیکن اس کے بعد میں نے اسکی آنکھیں آج تک سوکھی نہیں دیکھیں . اور میں ؟ میں پتا نہیں کب میں نہ رہا ' ابا ہو گیا . ابا کی رخصتی کے سارے کام کرتا میں علی احمد نہ رہا تھا ' میں علی حسن ہو گیا تھا . سولہ سالہ علی احمد نے جب باون سالہ علی حسن کو لحد میں اتارا تو وہ سولہ سالہ نہ رہا تھا .اس کی عمر پل میں دہائیاں پار کر گئی تھی . اور اب وہ باون سال کا تھا . نہ کم نہ زیادہ ... پورے باون سال کا ...
کوئی بڑا زمیندار نہیں تھا ابا لیکن جتنی بھی زمین تھی زرخیز تھی . محنتی تھا رج کے . بارش زیادہ برسے یا کم ' جلدی برسے یہ دیر سے ' کبھی پریشان نہیں ہوتا تھا وہ . ہمارا گھر سادہ ضرور تھا ' مگر آرام دہ تھا . پکا اور ہوادار . ابا نے خود بنوایا تھا ' پرانا گھر گرا کر . کھلا احاطہ ایک طرف تھا . کامے تھے . گھر میں اماں کے لئے ساری شہری سہولتیں تھیں . فریج ' کپڑے دھونے اور سکھانے کی مشین سالوں سے ہمارے گھر میں تھی . میرے اور چینو کے پاس کپڑے ' جوتے کی کمی نہیں ہوئی تھی . جیب خرچ تو نہیں ملتا تھا پر منگنی پر کبھی ابے نے نہ نہیں کی تھی . کھانا بھی ہمیشہ اچھا ملا . میں تو گوشت کے بغیر کبھی سالن کھا ہی نہیں سکتا تھا .
اب جب میں گھر کا سارا سودا سلف خود لا رہا تھا تو مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ ابا ہم سب پر کتنا خرچ کر رہا تھا . بینک کا کھاتا چیک کیا تو اس میں صرف بیس ہزار روپیہ تھا جو ایک زمیندار کے حساب سے کچھ بھی نہیں تھا . البتہ اس نے میرے اور چینو کے نام سے پانچ سالہ سکیم میں دو ' دو لاکھ روپیہ جمع کرا رکھا تھا اور خود ابا ... اس نے ساری زندگی چار خانوں والے تہمد میں کھدر کے کرتے میں ہی گزار دی تھی . اماں ایک بار اس کے لئے بند گابیاں لے آئی تھی شہر سے تو اس کو غصہ چڑھ گیا تھا .
کیا ابا ہم سے اتنا پیار کرتا تھا ؟
مجھے اب اپنی تبدیلیوں پر حیران نہ ہوتا . جب میں لسی کا چھںا ایک سانس میں ہی ختم کر کے چینو کو دیتا . اماں کے سوالوں کے جواب میں ابے کی طرح صرف ' ہوں ' کرتا . چینو کے سر پر ہاتھ پھیرتا .
احاطے میں چارپائی ڈال کر کاموں سے کام کرواتا . میں زرہ بھر بھی تو اجنبی نہ لگتا تھا خود کو . مجھے اپنی پچھلی زندگی سے اپنا کوئی میل نظر نہ آتا . مری ساری دلچسپی کماد بیچنے ' کھاد لانے ' مونجی کا سودا کرنے ' ہاریوں کے مسلے نمٹانے کے ارد گرد گھومتی تھی .
بھوری سست پڑی تھی صبح سے . میرے قدم آپ ہی آپ حکیم صاحب کے مطب کی طرف بڑھ گئے . اس لئے پھکی دیتے ہوئے انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا .
" کبھی وقت ملے تو آ جایا کرو بالڑے ." کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی . مجھے یوں تو شاید جانے کا وقت کبھی نہ ملتا ' لیکن بھینسوں اور گایوں کی چھوٹی موٹی تکلیفوں کی لئے کبھی پھکی بنوانے چلا جاتا تو کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ جاتا . آج بھی میں وہیں بیٹھا تھا کہ ماسٹر صاحب آ نکلے