" ابا ! میں اول آیا ہوں اور پورے فیصل آباد میں ."
میں نے اخبار اس کے سامنے کر دیا .
" ہمم " لمبا سا ہنکارہ بھر کے اس نے اخبار دیکھا اور ذرا کا ذرا مسکرایا پھر دوسری خبریں پڑھنے لگ گیا . اور میں پاگلوں کی طرح سامنے کھڑا دیکھتا رہ گیا . پھر سارا دن میں باہر ہی رہا . نہر کنارے بیٹھے مجھے شام ہو گئی . گھر آیا تو میرے اگے اگے دروازے سے حکیم محمد رمضان داخل ہو رہے تھے .میں انھیں دیکھ کر چونک گیا . گھر میں تو سب خیر ہے . یہ حکیم صاحب تو الله خیر کرے ' کبھی مریض دیکھنے کے علاوہ کسی کے گھر نہیں جاتے . اندر نظر پڑی تو ابا چارپائی پر لیٹا تھا . حکیم صاحب نے نبض پکڑی ہوئی تھی .
" ملیریا کا حملہ ہے . میں دوائی بھیج دیتا ہوں . دودھ کے ساتھ صبح شام ایک ایک پڑی. مٹھوں کا توڑا صبح منگوا لو . پانی کی جگہ وہی چوسے جائیں . بالڑے کو آدھے گھنٹے کے بعد میرے مطب پر بھیج دینا دوائی کے لئے ."
" اسلام علیکم ..." حکیم صاحب ابھی اپنے مطب پر پہنچے بھی نہ ہوں گے کے میں پیچھے بھاگا .
" ابے کو کیا ہوا ہے حکیم صاحب ! صبح تو ٹھیک ٹھاک تھا ."
" اوہو بالڑے' ابھی بھی ٹھیک ہے . یہ تاپ شاپ تو صدقہ ہے انسان کی جان کا . اب تم جاؤ. عشا کی نماز کے بعد آنا دوائی لینے ."
میں بھاگتا ہوا گھر واپس پہنچا . سیدھا بیٹھک میں . جہاں ابے کی چارپائی بچھی تھی . اماں اسی کمرے کے کونے میں جاۓ نماز بچھا کر نماز میں مشغول تھی . میرا دل چاہا کہ میں ابا کا منہ تک تنا ہوا کھیس نیچے کردوں اور اس سے باتیں کروں . چینو بھی وضو کر کے گیلا ہاتھ منہ لے کر آئ اور اماں کے ساتھ جائے نماز پر کھڑی ہو گئی . مجھے کمرے کی خاموشی سے ہول آنے لگا مگر جی کڑا کر کے موڑھے پر بیٹھا ' ابے کی طرف دیکھتا رہا .
ساری رات میں نے اس کے سرہانے جاگ کر گزار دی . اذانوں کے وقت ابے نے پانی مانگا . میں بھاگ کر پانی لے آیا .
اماں نے سہارا دے کر اسے اٹھایا میں نے گلاس اس کو منہ کو لگا دیا . بس ایک گھونٹ لے کر بس کر دیا اور میری طرف دیکھا . اس کی نظر سے پورے کا پورا علی حسن نکلا اور مجھ میں سما گیا . ایسا کیا تھا اس پل میں کے میں آج تک سمجھ نہ سکا .