SIZE
4 / 10

" اور تم اس طرح کیوں بیٹھی ہو . ابھی تک لباس بھی تبدیل نہیں کیا . کیا تم غسل نہیں کرنا چاہتیں ستارہ ؟" زویا نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا .

" کیا تمہیں اپنا لباس نا پسند ہے ؟" زویا نے اس کے ریشمی لباس کو پھیلا کر دیکھا .

" یوں تو یہ لباس بہت قیمتی اور منفرد ہے . اسے شہر کے خاص کاریگروں نے تیار کیا ہے .کرگت میں تو ایسا کوئی ماہر نہیں ہے ."

" ستارہ ! کیا تم اس شادی کے لئے تیار نہیں ہو ؟"زویا کی آواز اب کے بالکل نیچی تھی .

ستارہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی . زویا نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا .

" زویا ! کیا میں نے تم کو اس لئے بلوایا تھا کہ تم ایسی سستی دکھاؤ ." ادینہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے ڈانٹا .

" ستارہ ! وقت بہت کم ہے . جلدی لباس تبدیل کرو ." ادینہ نے اسے کھینچ کر پردے کے پیچھے دھکیلا .

" ماں ...؟" اس نے کچھ کہنا چاہا .

" بس ' کسی بات کی گنجائش نہیں ہے ستارہ ! تم نے اپنا حق خود کھویا ہے ." نذر نے جلدی جلدی کا شور مچا رکھا تھا جبکہ زویا اس کے بال سنوار کر ان میں موتی پرو رہی تھی . اور ادینہ اسے زیور پہنا رہی تھی . جب انہوں نے اس کے چہرے پر سرخ جالی کا گھونگھٹ کھینچا تو وہ سرخ گلاب سے بھی زیادہ خوبصورت اور معصوم دکھائی دیتی تھی .

مجھے دکھ ضرور ہے کہ تم نے مجھ پر بھروسہ نہ کیا . لیکن مجھے تسلی ہے کہ جس کو تم نے پسند کیا ہے وہ بہت اچھا ہے . جری اور ایماندار . میرا تجربہ کہتا ہے کہ وہ تمہیں خوش رکھے گا ."

ادینہ نے اسے ایک طرف سے تھام لیا اور زویا نے دوسری طرف سے اور اسے مہمانوں کے پاس لے آئیں . شادی کی رسمیں ادا کی جانے لگیں . دولہے کی ماں نے دولہے کی جوٹھی مٹھائی اسے کھلائی. اسے بیش قیمت جھومر پہنایا اور پیشانی پر بوسہ دیا . اب وہ شادی کا گیت گا رہی تھیں . ادینہ اور زویا بھی دف بجا رہی تھیں .

یتیمی نے نذر پر سے باپ کی نظر چھین لی تھی . وہ اپنا وقت قہوہ خانوں اور جوے کے اڈوں پر بتانے لگا تھا . ادینہ اس کو روکنے کی کوشش کرتی تو وہ لڑ پڑتا . اس سے پہلے کے لڑائی روز بروز بڑھتی جاتی اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی .

نذر اب ایک کڑیل جوان تھا . ادینہ چاہتے ہوئے بھی اسے نوکری کا نہیں کہتی تھی . وہ اپنے بیٹے کے مزاج کو جان گئی تھیں . معلوم تھا اگر بولے گی تو عزت گنوائے گی . محبت تو پہلے ہی اس کی آنکھوں سے آلودع کہ چکی تھی .آوارہ اور نکمے دوستوں میں گھرا نذر زمین اور جانوروں سے ہونے آمدنی کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا تھا . اپنی ماں اور بہن کی ضرورتوں کو بالکل فراموش کر کے . اگر اس کا گھر سے کوئی واسطہ تھا تو اتنا کہ اس کو ماں کے ہاتھ کا کھانا چاہیے ہوتا تھا . ادینہ جیسا کھانا پورے کرگت میں کوئی عورت نہیں بناتی تھی .