بچے بھی باتھ چپ چاپ سنتے رہتے ' جانتے تھے کہ امی گھر کی بات ہمیشہ گھر والوں سے ہی کرنے کو ترجیح دیتی تھیں . سہیلی نام کی کوئی چیز کبھی ان کی زندگی میں نہ دیکھی . بلکہ اس موضوع پر ان کی ابا مخالف تقریر وہ وہ پچھلے ہفتے ہی سن چکے تھے . امی کی زندگی میں سہیلی کے نہ ہونے کے پیچھے بھی ابا کا ہاتھ نکلا ... بقول امی ... دوستوں کو پورا پورا پروٹوکول دینے والے اور آخری سانس تک دوستیاں نبھانے والے ان مردوں کو شادی کے بعد کا بیوی کا ایک بھی سوشل ریلشن برداشت نہیں ہوتا . بیویوں کو ان کی سہلیوں سے دور رکھنے کے ایسے ایسے حربوں سے واقف ہوتے ہیں یہ مرد کہ پتا بھی نہیں چلتا اور پتا صاف ہو جاتا ہے ' ایک ایک کر کے ہر دوستی کا ...
" پتا تھا مجھے ' یہی کرے گا یہ آدمی ' ارے تمہاری تائی نہ بتاتیں مجھے تو یہ بندہ بو بھی نہ سونگھنے نہ دیتا باون ہزار کی ."
" باون ہزار ..." ندا کی آنکھیں پھیل گئیں . امی کی بے سر و پا گفتگو کا پہلا دلچسپ نکتہ ..." دادا ابا کا ایک پلاٹ تھا ادھر یونیورسٹی سائیڈ پہ... الله بخشے اپنے ہاتھوں سے اس میں ہزاروں کی تعداد میں ' کیکر ' ٹاہلی' سفیدے اور پتا نہیں کس کس چیز کے درخت لگا گئے تھے ' ابھی تو تمہارے ابا اور تایا نے کسی ایک حصے کی کٹائی کروائی اور بیٹھے بیٹھاے ایک لاکھ چار ہزار ہاتھ آ گئے . ایک وہ تمہارے تایا ہیں ' ایک ایک پائی کا حساب ان کی بیگم کی انگلیوں پہ دھرا ہے اور ایک میرے حصے کا " بنیا " ہاے میری قسمت ..."
" تو آپ ابا سے صاف بات کر لیں ' آخر کو تائی نے آپ کو بتایا ہے ."
" ہاں ... اور وہ تو مسکراتے ہویے میرے ہاتھ پہ رکھ دے گا باون ہزار ..." رفعت کو پتنگے لگے . ندا نے سر نیہواڑ کر انڈے پراٹھے پہ توجہ کی . یہاں بس " سننے " میں ہی عافیت تھی .
" باون ہزار تو چھوڑو ... گلی کے نکڑ پہ سبزی والے کی آواز سن کر مصطفیٰ کو دوڑایا کہ اسے روکے ... یہی ٹماٹر ہی تو خریدنے تھے دوپہر کے کھانے کے لئے . اندر گئی تو باپ تمہارا باتھ روم میں گھس چکا تھا . میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور ٹماٹر منگوا لئے . اب بتاؤ اتنی سی بات پہ کوئی قہر ڈھاتا ہے ."
وہ زرا دیر کو رکیں ' تو ندا معذرت خواہانہ انداز میں ہاتھ ہلاتی سکول کے لئے نکل گئی ' باہر رکشے والے کا ہارن بجنے لگا تھا .