" کہاں جا رہے ہیں ؟" وہ کپڑے استری کر کے لٹکا رہی تھی جب اس نے کاشف کو موٹر سائیکل پر باہر جاتے ہویے دیکھا . یقیناً وہ بشریٰ کو لے کر کہیں جا رہا تھا .
" بس ذرا ڈاکٹر اظہر تک بشریٰ کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے رات سے ."
وہ سرسری سا بتا رہا تھا ورنہ بتا کر جانے کی ضرورت نہیں مسوس نہیں کرتا تھا وہ . صدف کو اچھا تو نہ لگا ' مگر خاموش رہی . شادی کا تیسرا مہینہ تھا مگر وہ کاشف کو سمجھ کر بھی سمجھ نہ پا رہی تھی . وہ صدف سے محبت کرتا تھا اور نہیں بھی یا شاید کرتا ہی نہیں تھا . کیا تھا آخر ؟. بشریٰ کی بیٹی سبین اور خود بشریٰ اس گھر پر چھائی ہوئی تھیں . وہ دور کے رشتہ دار تھے کاشف کے ، مگر اتنے قریبی بلکہ قریب کے بن گئے تھے . ایسی دلداریاں اور دھیان داریاں عموما رشتہ داروں کی نہیں بھا تیں . کاشف اچھا اور خدا ترس انسان تھا مگر بعض اوقات بلکہ ہر وقت کی یہ خدا ترسی صدف کو عجیب سے خلجان میں مبتلا کر دیتی تھی .
ہر وقت سبین دیوار پار سے لٹکی سالن مانگتی رہتی تھی . پکوڑے کھانے ہیں ' پلاؤ بنایا ہے تو دے دیں . صدف یہ اس کو کبھی نہ دیتی اگر وہ عین کاشف اور اس کے کھانے کے دوران نہ آ دھمکتی اور وہ کاشف کا موڈ خراب نہ کرنے کی غرض سے اوپری دل سے ہی سہی اسے کچھ نہ کچھ تھما ضرور دیتی مگر وہ سبین کی اس چالاکی پر اسے اچھا نہ سمجھتی تھی اور رہی بشریٰ تو وہ اسے ماؤں والی روک ٹوک کرتی ہی نہ تھی . کاشف سے فرمائشیں کرنی ہوں ' کوئی چیز مانگنی ہو ' وہ جوانی کی دہلیز پار کرتی لڑکی سارے گر جانتی تھی .
کاشف اور صدف کے درمیان جب بھی بدمزگی یا تناؤ کا ماحول پیدا ہوا تھا تو وہ صرف بشریٰ اور سبین ہی کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ کاشف سے بڑھ کر خیال رکھنے والا اور پیار کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا ' مگر اس خدمت اور خدا ترسی کے معاملے میں وہ صدف کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرتا تھا . وہ اکیلی رہتی تھی مگر اکیلی ہوتے ہویے بھی اکیلی نہ تھی . بشریٰ اور سبین ان دونوں کے درمیان مضبوط پہاڑ کی طرح جمی تھیں .