نو بیاہتا دلہن کی طرح کسی نے اس کے ناز نخرے نہ اٹھائے تھے . اسے اگلے ہی دن سے سارا کام کاج سنبھالنا پڑا تھا . ڈری سہمی سی وہ سارا دن کاموں میں الجھی رہتی . شوکے کا حکم تھا کہ وہ اسے کبھی بے کار بیٹھی نظر نہ آئے ، سارا گھر شیشے کی مانند چمکتا تھا . شوکے کے ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی دھول مٹی کا نشان نظر نہیں آتا تھا . خود بھی ہر وقت نک سک سے تیار رہتی .
کچھ دنوں تک وہ اس کے معمولات کا جائزہ لیتا رہا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ بہت سیدھی اور معصوم ہے . ڈھونڈنے سے بھی جب اس میں کوئی خامی یا نقص نظر نہیں آیا تو پھر اسے وجہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہوئی . وہ اچھا کھانا بناتی تھی . مگر وہ خواہ مخواہ کے نقص نکالنے لگا .
" نمک تیز ہے ' کھانا بناتے ہویے دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا ." وہ اتنے ر عب اور غصّے سے پوچھتا کہ بے چاری پری گل محض منمنا کر رہ جاتی .
کل محلے کی ایک لڑکی آئ تھی ' اس نے دیکھا تو بگڑتے ہویے بولا . " یہ کیوں آئ تھی ."
" ویسے ہی ملنے آ ... "وہ تھوک نگلتے ہویے بمشکل بولی .
" دوبارہ میں محلے میں سے کسی کو گھر میں نہ دیکھوں اور نہ تم خود کبھی گھر سے باہر نکلنا ." یہ عجیب پابندی تھی ' وہ بے چاری سارا دن بیٹھی کڑھتی رہی . آخر یہ شوکا اس سے کیا چاہتا تھا .
وہ گھر میں چاٹ ، سموسے ، نمکو اور ڈھیروں چیزیں لے کر آتا ، ٹی – وی کے سامنے بیٹھ کر مزے سے کھاتا رہتا ' وہ پاس بیٹھ کر فقط اسکا منہ تکا کرتی تھی .آخر میں بچا کچھا اسے مل جاتا . یہ کیسی زندگی تھی اس کی ' اتنی گھٹن زد ہ ' حبس بھری ' اسکا بولنے کو دل چاہتا تو بس خود سے باتیں کیے جاتی تھی .